پاکستان

سوات میں امن کے نعرے کی مقبولیت

عثمان تورولی

سوات کے عوام کا کسی بھی بڑے دھماکے کے فوراً بعد یہ کہنا کہ ایسے کاموں میں ریاست برابر کی شریک ہے، خود ریاست کے لئے ایک بڑی تشویش کی بات ہونی چاہیے۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا اور ریاستی اداروں پر مسلسل تنقید اور تشکیک کا ”آفٹرمیتھ“ کتنا بھیانک ہو سکتا ہے، تاریخ نے ہمیشہ اس بات کی وضاحت دی ہے۔ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے وقت بھی اسی گمان سے فضا ابر آلود تھی۔ بلوچستان کا امن اسی محرومی کی وجہ سے برباد ہے۔ یہی محرومی بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ بلوچستان کی مائیں جب اپنے بچوں کے چہرے دیکھنے کے لیے ترس کر چپ کی چادر اوڑھ لیتی ہیں، تو نئی نسل کے خون میں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے اور ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا جذبہ خود جنم لے لیتا ہے۔

ماضی کے تلخ تجربات کی وجہ سے سوات میں اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کہیں گیس سلینڈر بھی پھٹے گا تو عوام سچائی جانے بغیر ریاستی اداروں کے گریبان پر ہاتھ ڈال دے گی۔ ادارے خود افراد سے بنتے ہیں اور انہیں افراد کے بیچ ادارے کی ساکھ اور اعتماد ہوتا ہے، لیکن ایسی صورت حال میں اداروں کے اہلکار کتنے عدم اعتماد کا شکار ہوتے ہیں یہ خود ان اداروں کو دیکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خود ادارے ہی اپنی تباہی کی چنگاری کو ہوا دے رہے ہوں۔

سارا پاکستان اور خاص کر دہشتگردی سے متاثرہ علاقے ریاست کے خلاف اپنے حقوق اور امن کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔ عوام امن و سلامتی کے خواہاں ہیں۔ تاہم اگر اہم و سلامتی کے ضامن ہی امن تباہ کرتے نظر آئیں گے تو امن کی مانگ کہاں سے کی جائیگی۔

اس بات کا اندازہ سوات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ سوات کی عوام حالیہ دھماکے کے فوراً بعد نکل کر سڑکوں پر امن کی صدائیں لگا رہی تھی۔ سوات، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لوگوں کا واحد مطالبہ ہی آئینی حقوق ہیں، جس میں زندہ رہنے، محفوظ اور آزاد رہنے کا حق سر فہرست ہیں۔ اس لئے ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر حال میں انہیں ان کے متعلقہ حقوق یقینی بنانے چاہئیں۔

سوات کے لوگ اب جان گئے ہیں کہ حقوق بند دیواروں میں بیٹھ کر نہیں ملتے۔ اس لئے پچھلے سال لاکھوں کی تعداد میں ہر طبقے سے وابستہ لوگوں نے ”اولسی پاسون“ میں شرکت کی۔ کئی پختون رہنماؤں، بشمول منظور پشتین، نے لوگوں میں دہشتگردی اور ان عناصر کے خلاف آواز بلند کرنے کا جذبہ مزید بڑھایا۔ سوات اور خیبرپختونخوا کی عوام اب دہشتگردی کے خلاف ایک آواز بن گئی ہے اور تمام صوبے کا ایک ہی نعرہ ہے۔ امن اور صرف امن چاہیے۔

ریاست اور اداروں کو ان علاقوں میں رونما ہونے ولاے ہر واقعے کے حقائق عوام کے سامنے رکھنے ہونگے۔ ریاست اور اداروں کی غفلت اور کوتاہی کو قبول کرتے ہوئے لوگوں کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ امن کے قیام کیلئے حقیقی اقدامات کے بغیر اب عوام کسی مصنوعی بیان بازی اب اعتماد نہیں کرینگے۔

Usman Torwali
+ posts

عثمان توروالی سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ہے۔ مختلف جرائد کے لئے سیاسی موضوعات پر کالم نگاری کرتے ہیں۔