فاروق سلہریا
راولا کوٹ کشمیر کی خوب صورت ترین وادیوں پر مبنی شہر ہے۔ اس کی ایک بلند و بالا چوٹی پر ایک پرانا گوردوارہ،کھنڈر کی شکل میں پکنک سپاٹ کے طور پر مشہور ہے۔
اس بلند و بالا چوٹی سے پورے راولا کوٹ شہر کا نظارا کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل راولا کوٹ جانا ہو تو دوستوں کے ہمراہ اس گوردوارے کی سیر بھی کی۔
بوسیدہ حالت میں موجود اس گوردوارے کو تقسیم کشمیر کی علامت بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ وجہ؟
خزانے کی تلاش نے اہل ایمان نے اس کا فرش کھود ڈالا تھا۔
گوردوارے کی ایک دیوار پر مقبول بٹ شہید اور چے گویرا کے انمٹ امیج کندہ ہیں تو دوسری جانب ہتھوڑے اور درانتی کا انقلابی نشان۔
میرے ساتھ کچھ دوست تھے جن کا تعلق جے کے این ایس ایف سے ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اس گوردوارے کی بحالی کے لئے کوئی مہم کیوں نہیں چلاتے؟
ان کا جواب سن کر اندازہ ہوا کہ تقسیم صرف 1947 میں نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان،پاکستان کے حکمران اسے روز میڈیا، نصابی کتابوں،فلموں اور دیگر نظریاتی آپریٹس کے ذریعے مسلسل ری پروڈیوس کرتے ہیں۔
”ہم نے ایک آدھ بار مطالبہ کیا،“ ایک کامریڈ نے جواب دیا”جس کی وجہ سے الٹا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہو گیا کہ یہ لوگ مسجد تو بنانے کی بات نہیں کرتے مگر گوردوارہ بنانا چاہتے ہیں“۔
کامریڈ کا جواب سن کر بے ساختہ منٹو یاد آیا…اپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در ر فٹے منہ
تقسیم وہ پاگل پن ہے جو اس خطے کو نارمل نہیں ہونے دے گی۔ بی جے پی اور قوم یوتھ وغیرہ تو محض بیماری کی علامتیں ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔