پاکستان

غیر سیاسی طلبہ کی سیاست میں دلچسپی کیوں ناگزیر ہے؟

حسنین جمیل فریدی

میری ایک کزن (جن کا تعلق ملتان سے ہے) مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ تم لوگ سڑکوں پر کیوں نکلتے ہو؟ احتجاج کرتے ہواور صرف مسائل پر تحریریں لکھتے ہواور تقریریں کرتے ہو۔ تم ہمیشہ منفی سوچتے ہو۔ تمہیں مثبت چیزیں نظر کیوں نہیں آتیں۔ پاکستان میں بہت سی خوبصورت چیزیں ہیں جن کے فضائل بیان کئے جاسکتے ہیں۔ جس پر میں کہا کرتا تھا کہ مری میں مارگلہ کی پہاڑیوں، گلگت میں قراقرم کی چوٹیوں اور کشمیر میں سر سبزو شاداب میدانوں کے سوا کچھ اچھا نہیں اور اگر ہے بھی تو اسے مزید اچھا کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر وہ روایتی مثبت کہانیاں سناتی تھیں جو کہانیاں مثبت رپورٹنگ کے لئے سنائی جاتی ہیں۔

خیر میری اس کزن کا داخلہ پنجاب یونیورسٹی میں ہوگیا۔ یہاں وہ غیر سیاسی سرگرمیوں کے بغیر مثبت سوچتے ہوئے تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ایک دن مجھے انکا فون آیا کہ ہمیں داخلہ ملنے کے ڈیڑھ ماہ بعد یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ ہاسٹل خالی کرنے کا کہا گیا ہے اور فیسوں کی واپسی سے بھی انکار کر دیا گیا ہے۔ اس پر احتجاج کرنا ہے، دھرنا دینا ہے، میڈیا سے رابطہ کرنا ہے اور کالم لکھنا ہے کچھ بھی کرو مگر میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے۔

حالیہ بجٹ کے بعد ایچ ای سی سمیت مجموعی تعلیمی بجٹ زیادہ کرنے کی بجائے کم کر دیا گیاہے۔ تعلیمی بجٹ بڑھانے کی دعویدار حکومت نے ایچ ای سی کا بجٹ ریکارڈ سترہ فیصد کم کر دیا، جامعات کو اپنا فنڈز خود جنریٹ کرنے اور چندوں سے اداروں کو چلانے کی نصیحت کی گئی۔ ان بجٹ کٹس سے براہ راست طلبہ کا نقصان کیا گیا جس کی بناپر فیسوں میں سو فیصد تک اضافہ ہوا۔ بہت سے ڈگریوں کو بند کر دیا گیا۔ ایم فل اورپی ایچ ڈی کے داخلے سمیت بی ایس اور ایم اے کے داخلوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی گئی۔ تحقیق اور نئے مقالہ جات کیلئے بجٹ کم کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ ملکی اور غیر ملکی حکومتی سکالر شپس بھی ختم کر دی گئیں۔

ایسا کرنے سے بھی جب بجٹ کنٹرول نہ ہو سکا تو انتظامیہ نے مختلف بالواسطہ ہتھکنڈوں سے طلبہ کے مستقبل سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کی حالیہ مثال پنجاب یونیورسٹی کے ایل ایل بی پارٹ 3کے ایک پرچہ سی پی سی (سول پروسیجرل کوڈ)کو حدف بنا کر تقریباً 80 فی صد طلبہ کو اس میں فیل کر دیا گیا۔ پرائیویٹ پڑھنے والے طلبہ کو یہ ایک پرچہ فیل کرنے کی بناپر تمام پرچوں کی فیس ادا کرنا ہوگی جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ سپلی کی فیس ادائیگی کی صورت یونیورسٹی کے بجٹ میں اضافہ کریں گے۔

یہ مسئلہ صرف فیسوں تک محدود نہیں بلکہ پرچوں کی چیکنگ اور مارکنگ پر بھی سوالات اٹھاتا ہے یعنی پیپر کون چیک کرتا ہے؟ اس چیکنگ کا کیا پیمانہ ہے؟ اور سی ایس ایس کی طرح وکالت کے طلبہ کا بھی صرف ایک پرچہ ہی کیوں حدف بنایا جاتا ہے؟ میری تحقیق کے مطابق ایک پرچے کی چیکنگ کے تیس سے پچاس روپے دئے جاتے ہیں اور ایک پرچے کو حل کرنے کا وقت اوسطاً تین گھنٹے جبکہ اسے چیک کرنے کا وقت دو سے پانچ منٹ ہے اسی لئے پرچے چیک کرتے وقت کوالٹی کی بجائے کوانٹیٹی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اور کوالٹی کو ملحوظ خاطر رکھنے والے طلبہ فیل ہوجاتے ہیں۔ یہاں دوبارہ بجٹ کا مسئلہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے یا پیپر  چیکنگ کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے وسائل موجود نہیں۔ علاوہ ازیں یہی سمجھا جائے کہ بجٹ کی کمی کی صورت یونیورسٹیاں اپنی سرپرستی میں ایسا کرواتی ہیں تا کہ سپلی کی مد میں انکے پاس پیسے آ سکیں اور وہ یونیورسٹی کے امور چلا سکیں۔

ان بجٹ کٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سی جامعات نے اپنے بی اے نتائج کو روکے رکھا تا کہ طلبہ کسی اور یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے سکیں۔ ایسے میں حالیہ مثال بہاالدین زکریہ یونیورسٹی، ملتان کی ہے جہاں بی اے کے نتائج کا اعلان پنجاب یونیورسٹی کے داخلے کی تاریخ گزرنے کے بعد کیا گیا۔ ان طلبہ(جنہیں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنا تھا)نے بی اے کے نتیجے کا خانہ خالی چھوڑ کر اپنے داخلے کی درخواست جمع کروائی اور کئی طلبہ نے انتظامیہ کے کہنے پر اندازے کے طور پر نمبر لکھے اور نتائج کے اعلان کے بعد حقیقی رزلٹ کارڈ پنجاب یونیورسٹی کو ارسال کیا جس کی بناپر انکا میرٹ بنایا گیا۔ اور تقریباً پچاسی طلبہ کو پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ دے دیا گیا۔ کلاسز کے اجراکے ڈیڑھ مہینے بعد انکا داخلہ کینسل کر دیا گیا اور انتظامی غلطی ماننے کی بجائے طلبہ پر غلط بیانی کرنے کے الزامات لگا کر انہیں جامعات سے فارغ کر دیا گیا۔ اور کسی بھی قسم کے احتجاج پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔

انتظامیہ کی غلطی طلبہ کا گناہ بنا دی گئی۔ ماضی میں اپنے حقوق کیلئے کالی پٹیاں پہن کر کلاسز کا بائیکاٹ کرنے والے اساتذہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ طلبہ اپنے حق کیلئے سیاست نہ کریں۔ طلبہ کے روحانی والدین تصور کئے جانے والے اساتذہ کیسے اپنے بچوں کو جامعہ سے نکال سکتے ہیں۔ ان داخلوں کو ختم کرنے پر جس قانون کا سہارا لیا گیا ہے اصولاً اس قانون کا اطلاق طلبہ سمیت انتظامی ڈھانچے میں شامل تمام کلرکوں، شعبہ جات کے پرنسپلز اور داخلہ کمیٹی پر بھی ہوتا ہے جن کی کوتاہی بہت سے طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اگر طلبہ کو نکالا جاسکتا ہے تو انہیں بھی نکالا جانا چاہیئے جنہوں نے اپنی کوتاہی کا حل طلبہ کو جامعہ بدر کرنے میں ڈھونڈلیا۔

وہ طلبہ جو ہمیشہ غیر سیاسی رہے یا طلبہ سیاست کی مخالفت کرتے رہے انہیں بھی سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہاں اپنے حقوق کے دفاع کیلئے کھڑے ہونے والے طلبہ کو سیاست کرنے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ شاید یہ سیاست ہی ہے جو طلبہ کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے اگر ایسا ہے تو انہیں اس سیاسی عمل سے کاٹا نہیں جاسکتا۔ پیرائسلز کا کہنا تھا کہ ”آپ سیاست میں دلچسپی نا رکھیں مگر سیاست آپ میں دلچسپی رکھتی ہے“۔

ایچ ای سی بجٹ کٹس سمیت طلبہ کے تمام مسائل سیاسی ہیں تو انکا حل غیر سیاسی کیسے ہو سکتا ہے۔ ان مسائل سے انفرادی طور پر لڑا نہیں جاسکتا۔ تمام انفرادی اوزاروں کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہر طبقہ خود پر ہونے والے استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو ملک کا حقیقی مستقبل سمجھے جانے والے طلبہ کا اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا کسی صورت بھی غلط اقدام نہیں۔ یقینًا پاکستان میں ایک بڑی طلبہ تحریک کی ضرورت ہے جو طلبہ پر ہونے والے مظالم اور محرومیوں کا ازالہ کر سکے۔

Husnian Jamil Faridi
+ posts

حسنین جمیل فریدی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن ہیں۔ انکی وابستگی پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اور حقوقِ خلق موومنٹ سے ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔