عمران کامیانہ
موجودہ جنگی صورتحال کا انت کچھ بھی ہو‘ یہ کچھ اہم اسباق کی حامل یقینا ہے۔ جن کا مختصر خلاصہ ذیل میں کیا گیا ہے۔
۱) سب سے پہلے ان حالات نے دونوں ممالک میں سوشلزم کے لبادے میں چھپے قومی شاونسٹوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ ”سوشل حب الوطن“ دوسری انٹرنیشنل کی وہ مکروہ، موقع پرست اور قابل نفرت باقیات ہیں جن کے خلاف لینن اور ٹراٹسکی نے تمام عمر جدوجہد کی، جن کے ہاتھ روزا لکسمبرگ اور کال لائبنخت کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جن کا ”سوشلزم“ اصلاح پسندی و مفاد پرستی کے اوزار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ”دشمن“ یا ”دوسری“ ریاست جارحیت کر رہی ہے جبکہ ان کی ”اپنی“ ریاست دفاعی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس گھٹیا پوزیشن کو پھر ”اپنی“ ریاست پر ثانوی قسم کی تنقید اور مجرد قسم کے جنگ مخالف نعروں میں لپیٹنے کی بھونڈی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ مثلاً ”اگرچہ ہماری ریاست یا حکومت بھی اتنی اچھی نہیں لیکن اس بار شروعات دوسری طرف سے کی گئی ہے!“ حالانکہ یہ مارکسی طریقہ کار کی ابجد ہے کہ تصادم کی فوری وجوہات کی بجائے متحارب قوتوں کا عمومی تاریخی کردار اور عزائم مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ یوکرائن پر روس کی سامراجی چڑھائی کے معاملے میں انہیں جارحیت اور مزاحمت کا یہ فرق اور تقسیم یا تو بھول جاتی ہے یا یہ بے شرمی اور ڈھٹائی سے پیوٹن کے کیمپ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سرکاری و کیمپسٹ بائیں بازو کا مقدر تاریخ کا کوڑے دان تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
2) دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی قیادت میں تشکیل پانے والا سامراجی لبرل آرڈر کبھی بھی ایک منصفانہ بندوبست نہیں تھا۔ گزشتہ 70 سالوں میں اس نے نسل انسان کی وسیع اکثریت کو جبر، استحصال، بربادی اور ذلت ہی دی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ قبیل کا فار/ ہارڈ/ آلٹ رائٹ اسے کسی بہتر چیز سے تبدیل نہیں کر رہا بلکہ وسیع تر انتشار، افراتفری اور بے لگام جارحیتوں کے دروازے کھول رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک استحصالی آرڈر کو ایک استحصالی ڈس آرڈر سے بدلنے کی روش ہے۔ جو مزید اور زیادہ خوفناک بربادیوں کا پیش خیمہ ہے۔ ایسی بربادیاں جن میں انسانیت کا وجود ہی مٹ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی خود ساختہ مارکسسٹ اور ”کمیونسٹ“ ابھی تک روایتی دائیں بازو اور اس نئے ابھرنے والے انتہائی دائیں بازو کے درمیان معقول انداز سے فرق کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ یہ جہالت کی ایک اور انتہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت تصادم کے حوالے سے امریکہ پر مسلط جاہلوں کے ٹولے نے جو طرز عمل اپنایا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ لمپن بورژوازی کے یہ لوگ یا تو صورتحال کی سنگینی سے واقف ہی نہیں ہیں یا خود اس صورتحال کی تشکیل میں ملوث ہیں۔ بہرصورت یہ ایک انتہائی خطرناک کیفیت ہے۔
3) پہلے روس یوکرائن جنگ اور پھر غزہ میں جاری نسل کشی نے جنگ، جارحیت اور خونریزی کے حوالے سے دنیا کے’تھریش ہولڈ‘ (برداشت) میں خاصا اضافہ کر دیا ہے۔ ان حالات میں نہ صرف جنگیں بلکہ بڑی اور ہولناک جنگیں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار ہو رہا ہے کہ کروڑوں لوگوں پر مشتمل آبادیوں (یوکرائن اور فلسطین) کے بطور قوم خاتمے کی باتیں سر عام اور بے دھڑک انداز میں کی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے فار رائٹ کی ابھرتی ہوئی پارٹیاں اور حکومتیں ایک دوسرے کو شہ دے رہی ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے عالمی معاہدے، اعلانیہ و غیر اعلانیہ سمجھوتے اور ادارے (چاہے جیسی بھی منافقانہ اور نازک شکلوں میں موجود تھے) بے معنی ہو کے رہ گئے ہیں۔ جنوب ایشیا میں مودی سرکار کی جارحانہ روش (بشمول سندھ طاس معاہدے کی معطلی) اور جنگی صورتحال کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
4) حالیہ پاک بھارت تصادم میں چین کے ملٹری ہارڈ ویئر نے مغربی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ بین الاقوامی تناظر میں اس عسکری موازنے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین معاشی حوالے سے اگرچہ مغربی سامراج سے کافی پیچھے (اور پاکستان و بھارت جیسے ممالک سے بہت آگے) ہے لیکن جدید ترین سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مغرب کو پچھاڑتا جا رہا ہے۔ یعنی ایسے شعبے جو آج تک مغربی سامراج کی اجارہ داری سمجھے جاتے رہے ہیں۔ منڈی کی معیشت پر مبنی مغربی سرمایہ داری ایک تاریخی زوال اور بحران سے دوچار ہے۔ یہ ایک سامراجی قوت (یا کیمپ) کے زوال اور ایک نئی سامراجی قوت کے ابھار پر مبنی ایک دھماکہ خیز صورتحال ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ عمل ایک بڑے تصادم کے بغیر شاید ہی پایہ تکمیل کو پہنچا ہو۔ ٹرمپ ٹولہ واقعی چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے یا محض ایک منافع بخش ”ڈیل“ کا خواہاں ہے‘ یہ ایک قابل غور سوال ہے۔ بہرحال اس ٹولے کی غیر سنجیدہ حرکتیں اور مسلسل یو ٹرن زیادہ سے زیادہ ممالک کو چین کے قریب (یا مزید قریب) لانے کا موجب بن رہے ہیں۔
5) بھارت میں پاکستان سے زیادہ جہالت، پسماندگی، بنیاد پرستی اور توہم پسندی موجود ہے۔ موجودہ حالات میں انڈین نیوز میڈیا کو صرف پندرہ منٹ دیکھ کے ہی یہ صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرح بھارت بھی تاریخی طور پر ناکام، نامراد اور تاخیر زدہ سرمایہ داری کا مظہر ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت خود مودی ہے (اگرچہ جنگی جنون کی حالیہ قسط مودی کے ڈاؤن فال کی شروعات ثابت ہو سکتی ہے)۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی میں بھارت کی بے مثال ترقی کی کہانیاں زیادہ تر مبالغہ آرائی اور فریب پر مبنی ہیں۔ یہ بات ہم تب سے کر رہے ہیں جب پاکستان کا لبرلزم اور اصلاح پسند بایاں بازو بھارتی جمہوریت، ترقی اور سیکولرزم کے گن گاتا تھا اور اسے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتا تھا۔ ہماری دوسری کئی باتوں کی طرح یہ بھی ایک غیر مقبول پوزیشن تھی جس پر ہمیں آرتھوڈاکس اور حقائق سے کٹا ہونے کے طعنے دئیے جاتے تھے۔ لیکن وقت اور حالات نے اسے بالکل درست ثابت کیا ہے۔
6) منڈی کی معیشت کا یہ نظام اپنی حالت نزع میں ساری نسل انسان کو ایک مکمل ہلاکت کی طرف دھکیل رہا ہے (ماحولیاتی تباہی، بین السامراجی تنازعات کی شدت، مزید جنگیں و پراکسی جنگیں، ممکنہ ایٹمی تصادم، بے نظیر معاشی بحرانات وغیرہ)۔ نہ تو تاریخی مادیت تاریخ کا کوئی بنا بنایا خاکہ ہے‘ نہ یہ لازم ہے کہ بعد از سرمایہ داری‘ سوشلزم ہی انسان کی منزل ہے۔ بربریت اپنے سارے آثار اور نشانیوں کے ساتھ سر پر منڈلا رہی ہے۔ شعوری طور پر اس نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج کی بنیادیں استوار کیے بغیر نجات کے امکانات معدوم ہیں۔

