نقطہ نظر

صمود فلوٹیلا پر سوار جماعت اسلامی کی مجسم منافقت پر سینیٹر مشتاق کے نام خط

فاروق سلہریا

محترم سینیٹر مشتاق احمد صاحب!

السلام علیکم! یہ بات قابل ستائش اور جرات مندی کا اظہار ہے کہ آپ صمود گلوبل فلوٹیلا کا حصہ بن کر غزہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ بطور مارکس اسٹ مجھے فخر ہے کہ اس فلوٹیلا میں فورتھ انٹرنیشنل کے کارکن برازیل اور آئرلینڈ سے شریک ہیں۔ آئر لینڈ سے شریک ہونے والوں میں رکن پارلیمنٹ پال مرفی سے شائد آپ کی ملاقات بھی ہوئی ہو۔ فورتھ انٹرنیشنل کے علاوہ انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ (آئی ایس ایل) کے بعض کارکن بھی اس فلوٹیلا میں شامل ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کی نظریں اس فلوٹیلا پر ہیں۔ امید ہے اس بار یہ فلوٹیلا غزہ کی ناکہ بندی توڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ کہ فورتھ انٹرنیشنل یا آئی ایس ایل کے مارکسسٹ کارکن، جماعت اسلامی اور لبرل سوچ رکھنے والے لوگ…سب اس فلوٹیلا کا حصہ ہیں، اس بات کی غمازی ہے کہ فلسطین میں جاری بربریت کے خلاف دنیا بھر کے عوام اہل فلسطین کے ساتھ ہیں۔

مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے اس گلوبل فلوٹیلا کا حصہ بننا مناسب سمجھا حالانکہ اس کا اہتمام کرنے والوں میں مغرب کے ترقی پسند کارکن تھے۔ بظاہر یہ مناسب نہیں لگتا کہ میں اس موقع پر آپ کے قول و فعل کے تضادات یہاں نمایاں کروں اور جماعت اسلامی کے علاوہ آپ کی اپنی نظریاتی قلابازیوں کی تفصیل یہاں پیش کروں لیکن ہم دونوں سیاسی کارکن ہیں۔

دو مخالف نظریاتی دھڑے جب مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف محاذ بنائیں تو، کم از کم میری تربیت یہی ہے کہ اپنے اتحادی بارے کسی قسم کی خوش فہمیاں نہ تو پالی جائیں نہ ہی محنت کش طبقے میں اپنے وقتی اتحادی…مگر نظریاتی مخالف…بارے کسی غلط فہمی کو فروغ دیا جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ نے صمود فلوٹیلا سے جو چند ٹویٹ کئے ہیں، ان کا تجزیہ کیا جائے۔

آپ نے بے شمار ٹویٹ کئے ہیں جن میں آپ نے پر اُمن جدوجہد کی بات کی ہے۔ آپ نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ اسرائیل کو جارحیت سے روکنے اور فلوٹیلا کی سلامتی کے لئے، ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے۔ آپ کا موقف بالکل درست ہے۔

مصیبت یہ ہے کہ یہ موقف منافقت سے بھر پور ہے۔ آپ کی جماعت اسلامی اور پاکستان بھر کے مولوی ستر سال سے اسرائیل کو بذریعہ جہاد نیست و نابود کرنے کے اعلان کیا کرے تھے مگر صمود فلوٹیلا پر سوار ہوتے ہی سینیٹر مشتاق نے پر امن جدوجہد کا پر چم بلند کر لیا!

سینیٹر صاحب! بقول سہیل وڑائچ شہید یہ کھلا تضاد نہیں؟

کشمیر کو آپ بذریعہ جہاد آزاد کرانا چاہتے ہیں اور اس چکر میں آپ نے اپنے باوردی آقاؤں کے ساتھ مل کر جموں کشمیر کو بارود کا ڈھیر بنا دیا۔ معلوم نہیں کہ آپ کا کوئی بیٹا یا بھائی بذریعہ سری نگر جنت روانہ ہوا یا نہیں مگر جموں کشمیر اور پاکستان کے ہزاروں غریب بچے جماعت اسلامی نے ضرور جنت روانہ کر دئیے۔ اسی طرح، افغانستان کو سوویت روس سے ’آزادی‘ دلوانے کے لئے آپ نے انکل سام کی قیادت میں بھر پور جہاد بھی کیا اور جہاد کی تبلیغ بھی۔ چیچنیا سے بوسنیا تک، سب جگہ جماعت اسلامی جہاد کی قائل رہی مگر صمود گلوبل فلوٹیلا پر سوار ہوتے ہی سینیٹر مشتاق احمد اسرائیل کے خلاف پر امن جدوجہد پر اتر آئے۔ بقول سہیل وڑائچ شہید یہ کھلا تضاد نہیں؟

یہی منافقت کافی تھی لیکن فرانس کی رکن پارلیمنٹ میری مسمیر (Marie Mesmeur) اور سویڈن کی معروف کلائمیٹ ایکٹوسٹ گریتا تھن برگ کے ساتھ آپ کے انٹرویو اور تصاویر دیکھ کر تو میں بھی…جو جماعت اسلامی کی منافقتوں کا دیرینہ طالب علم ہے…حیران رہ گیا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: بقول سہیل وڑائچ شہید یہ کھلا تضاد نہیں؟

میری مسمیر کے ساتھ انٹرویو والے ٹویٹ میں آپ نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ وہ ’La France Insoumise‘ کی رکن ہیں جو کہ فرانس کی سب سے بڑی سوشلسٹ جماعت ہے۔ آپ نے لکھا ”کیا پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کے لئے اس میں کوئی سبق ہے؟ فرانسیسی ممبر پارلیمنٹ میری مسمیر ہمارے ساتھ غزہ کے پر خطر سفر پر‘۔ ویسے اگر کوئی پاکستانی خاتون رکن اسمبلی اس فلوٹیلا پر سوار ہوتی تو کیا جماعت اسلامی اس کو فحاشی قرار دیتی یا اس کی حمایت کرتی؟

آپ نے میری مسمیر کے ساتھ انٹرویو بھی ٹویٹ کیا۔ اسی طرح آپ نے گریتا تھنبیری کے ساتھ ایک تصویر بھی ٹویٹر پر پوسٹ کی ہے۔

میری اور گریتا کے ساتھ آپ کی تصایر دیکھ کر یقین کیجئے مجھے جماعت اسلامی کے وہ بیانات یاد آ گئے جن میں طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کی حمایت کی گئی۔ وہ پراپیگنڈہ یاد آیا جس میں مخلوط تعلیم اور مرد عورت کے ایک جگہ جمع ہونے کو کفر قرار دیا گیا۔ وہ حیا مارچ یاد آئے جو عورت مارچ کو ناکام بنانے کے لئے جماعت اسلامی کرتی ہے۔

کیا میری مسمیر کے ساتھ انٹرویو کرتے ہوئے اور اس انٹرویو کے ذریعے پاکستانی پالیمینٹیرینز کو طعنے دیتے ہوئے آپ کو یاد نہیں آیا کہ جماعت اسلامی نے بے نظیر بھٹو بارے یہ مہم چلائی تھی کہ عورت مسلمان ملک کی سربراہ نہیں ہو سکتی؟ یا یہ کہ عورت کو برقع پہننا چاہئے اور گھر کی چار دیواری سے بغیر محرم کے باہر نہیں نکلنا چاہئے؟

کیا آپ سچ میں میری مسمیر کو ایک رول ماڈل تصور کرتے ہیں یا یہ کہ کافر عورتوں کو تو فلسطین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے جان خطرے میں ڈالنی چاہئے مگر اہل ایمان کی خواتین کو باورچی خانے اور مومنین کے بستر تک محدود رہنا چاہئے؟

آپ کے ٹویٹ سے تو لگتا ہے کہ آپ میری مسمیر کو اپنا ہیرو مان رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو شائد آپ کو یہ بھی سمجھ آئی ہو کہ میری مسمیر ہو یا گریتا تھنبیری، ایسی شاندار خواتین مدرسوں، حیا مارچوں، عورت کو آدھا قرار دینے اور اسے طالبان کی طرح تعلیم سے محروم کر دینے کے نتیجے میں سامنے نہیں آتیں۔ گریتا اور میری سوشلزم اور فیمن ازم کی پیداوار ہیں۔ آپ دونوں کو حرام قرار دے کر ہمیشہ ان کے خلاف جہاد پر کمر بستہ رہے ہیں۔ چاہے اس جہاد کے لئے آپ کو امریکی ڈالر ہی کیوں نہ زہر مار کرنے پڑے۔

میں امید کرتا ہوں کہ یورپ اور لاطینی امریکہ سے اس فلوٹیلا میں شریک بہادر خواتین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے آپ کچھ سبق سیکھیں گے۔ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا رہا ہوں کہ تجربات اور متبادل خیالات و ماحول کے نتیجے میں جماعت اسلامی جیسی بنیاد پرست پارٹی کے رکن بھی انسان دوست نظریات کی جانب آ سکتے ہیں۔

ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ آپ جتنے عورت دشمن پہلے تھے، ممکن ہے غزہ سے واپسی پر بھی عورت دشمن پر اسی ثابت قدمی سے گامزن رہیں۔ جس طرح ’جہاد‘ کے سوال پر پہلے جماعت اسلامی دوہرے معیار کی قائل رہی، آئندہ بھی اسی پر گامزن رہے۔ اس وقت تو میں صرف ان نیک خواہشات پر اس خط کا خاتمہ چاہتا ہوں کہ آپ اور صمود فلاٹیلا پر سوار تمام افراد بحفاظت واپس پہنچیں۔ اس سے بھی اہم یہ کہ غزہ میں قتل عام بند ہو، فلسطین آزاد ہو، دنیا بھر سے جنگ اور تشدد کا خاتمہ ہو۔

نیک تمناوں کے ساتھ۔

فقط۔

فاروق سلہریا

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔