فیض احمد فیض
اور کچھ دیر میں لٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدہئ نمناک سے باری باری
سب ستارے سر خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقت
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
اس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی اس طور کہ پچھتاؤگے
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤگے
اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشتر صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتہئ واماندگیئ آخرشب
بھول کر ساعت درماندگیئ آخر شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے
