لاہور(جدوجہد رپورٹ)1936 کے سوویت آئین میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سوویت یونین اُن غیر ملکی شہریوں کو پناہ دے گا ،جنہیں ’محنت کش عوام کے مفادات کا دفاع کرنے‘پر ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ تاہم تاریخ نے دیکھا کہ اسٹالن کی حکومت نے اسی وعدے کو شرمناک طور پر توڑ دیا۔ 1930 کی دہائی کے اواخر میں سینکڑوں جرمن اور آسٹریائی کمیونسٹ، یہودی انقلابی، اور فاشزم مخالف کارکنان، جنہوں نے ہٹلر کے جبر سے بچنے کے لیے سوویت یونین میں پناہ لی تھی، وہ سوویت حکام کے ہاتھوں جیلوں، تشدد اور بالآخر نازیوں کے حوالے کیے جانے کے شکار بنے۔ تخمینوں کے مطابق سوویت حکام نے 600 سے زائد جرمن اور آسٹریائی انقلابیوں کو ہٹلر کی نازی حکومت کے حوالے کیا۔
’جیکوبن‘ کے مطابق ان بدقسمت لوگوں میں ایک مشہور نام مارگریٹے بوبرنیومن کا بھی تھا۔ وہ جرمن کمیونسٹ پارٹی (کے پی ڈی) کی سرگرم رکن تھیں، جنہوں نے 1920 کی دہائی میں کامنٹرن کے جریدے انپریکور کے لیے کام کیا اور بعد میں کے پی ڈی کے رہنما ہائنس نیومن کے ساتھ سیاسی و ذاتی تعلق استوار کیا۔ ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ جوڑا برلن سے فرار ہو کر ماسکو پہنچا، مگر اسٹالن کے ’عظیم تطہیری عمل‘ (Great Purge) کے دوران دونوں ہی خود ظلم کے شکار بن گئے۔ ہائنس نیومن پر جاسوسی کا جھوٹا الزام لگا کر 1937 میں گولی مار دی گئی، جب کہ مارگریٹے کو قید میں ڈال کر 1940 میں نازی جرمنی کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ ان 30قیدیوں میں شامل تھیں جنہیں سوویت خفیہ پولیس (این کے وی ڈی) نے برسٹ لیتوسک کے مقام پر ایس ایس افسران کے حوالے کیا۔
اسی طرح آسٹریا کے انقلابی فرانز کورٹشونر کی کہانی بھی اسی المیے کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ لینن کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور پہلی عالمی جنگ کے دوران سماجی جمہوری پارٹیوں کی جنگی پالیسیوں کے مخالف تھے۔ بعد ازاں وہ آسٹریا کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں شامل ہوئے اور 1930 میں سوویت یونین جا کر کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین میں شامل ہو گئے۔ 1936 میں ان پر’ضد انقلاب‘کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ اپریل 1941 میں سوویت حکام نے انہیں گیسٹا پو کے حوالے کر دیا، جہاں انہیں بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور جون 1941 میں انہیں آشوٹز میں قتل کر دیا گیا۔
یہ صرف چند مثالیں تھیں۔ مورخین کے مطابق اسٹالن کے احکامات پر یا این کے وی ڈی کی پالیسیوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 600سے زائد جرمن، آسٹریائی، اور ہنگری کے کمیونسٹ اور فاشزم مخالف کارکن نازی حکومت کے حوالے کیے گئے۔ ان میں سے کئی یہودی تھے، کچھ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے کارکن، اور کچھ وہ جو 1934 کی آسٹریائی بغاوت کے بعد سیاسی پناہ کے لیے ماسکو پہنچے تھے۔ ان میں آسٹریائی شٹس بندیا ریپبلکن ڈیفنس لیگ کے تقریباً 750 اراکین بھی شامل تھے جنہوں نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی تھی، مگر بعد میں خود اسٹالن کی ’صفایا مہم‘کا شکار بنے۔ 1939 میں ایسے 25افراد کو ایک ہی گروپ میں وارسا پہنچا دیا گیا، جن میں سے دس شٹس بند کے سابق رکن تھے۔
1939 کے اگست میں سوویت یونین اور نازی جرمنی کے درمیان مولوتوف ریبنٹروپ معاہدہ (غیر جارحیت کا معاہدہ) طے پایا، جس کے بعد دونوں طاقتوں نے پولینڈ کو تقسیم کیا۔ اسی دور میں سیاسی قیدیوں کی نازیوں کے حوالے کیے جانے کا سلسلہ تیز ہوا، اگرچہ ایسے واقعات اس معاہدے سے قبل بھی ہو رہے تھے۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1937 سے 1938 کے درمیان ہی تقریباً 60جرمن یہودی اور کمیونسٹ کارکن سوویت یونین سے نکال کر نازی حدود میں داخل کیے گئے۔ ان میں 1910 میں برسلاؤ میں پیدا ہونے والے نوجوان انقلابی ارنسٹ فابش بھی شامل تھے، جو ’رائٹ اپوزیشن‘سے وابستہ کمیونسٹ رہنما برانڈلر اور تھا ل ہائمر کے نظریاتی حلقے کے رکن تھے۔ 1937 میں انہیں ماسکو میں گرفتار کر کے اگلے سال جرمن پولیس کے حوالے کر دیا گیا، اور بالآخر وہ 1943 میں آشوٹز کیمپ میں مارے گئے۔
تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ان قیدیوں کو مخصوص سفری اجازت نامے دیے جاتے تھے جو صرف مغرب یعنی جرمنی کی جانب سفر کے لیے کارآمد ہوتے۔ سوویت حکام خود جرمن سفارت خانے کو ان قیدیوں کی فہرستیں بھیجتے جن میں نام، پس منظر اور الزامات درج ہوتے۔ ان میں سے بیشتر کو کسی باقاعدہ تبادلے کے تحت نہیں بلکہ یکطرفہ طور پر بھیجا جاتا تھا، یعنی نازی حکومت نے اکثر ان افراد کی واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
یہ تمام واقعات اسٹالن کے نظام کے اندرونی تضادات اور خوف کے کلچر کی پیداوار تھے۔ ابتدا میں تطہیر کا نشانہ انقلابی قیادت اور ممکنہ مخالفین تک محدود تھا، مگر بعد میں ’جاسوسی‘ اور’غداری‘کے فرضی الزامات نے ہر اس شخص کو لپیٹ میں لے لیا جو غیر ملکی پس منظر رکھتا تھا۔ سوویت یونین نے پولش، جرمن اور آسٹریائی کمیونسٹوں تک کو دشمن ایجنٹ قرار دے کر گرفتار کیا۔
یہ ظلم اپنی انتہا کو اس وقت پہنچا جب کے پی ڈی کے بانی رکن ہیوگو ایبرلائن جیسے رہنماؤں کو بھی گرفتار کر کے تشدد کے ذریعے اقبال جرم پر مجبور کیا گیا۔ انہیں ہفتوں کھڑا رکھا گیا، سونے اور کھانے سے محروم رکھا گیا، اور آخرکار 1941 میں قتل کر دیا گیا۔ مورخ ہرمن ویبر کے مطابق کے پی ڈی کی اعلیٰ قیادت کے 43 ارکان میں سے زیادہ افراد اسٹالن کے دور میں این کے وی ڈی کے ہاتھوں مارے گئے بانسبت ان کے جو نازیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
مارگریٹے بوبرنیومن کو نازی حکومت نے ریوینس بروک خواتین کیمپ میں بھیج دیا، جہاں وہ 1945 میں آزاد ہوئیں۔ تاہم اسٹالن کی فوجوں کے دوبارہ پیش قدمی کے خوف سے وہ امریکی کنٹرول والے علاقے میں پناہ گزین ہوئیں۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ کمیونزم کی شدید ناقد بن گئیں، مگر ان کی کہانی آج بھی اس المیے کی یاد دلاتی ہے جب سوشلزم کے نام پر قائم ایک ریاست نے اپنے ہی انقلابیوں کو ہٹلر کے ہاتھوں موت کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی تلخ یاد دہانی ہے کہ نظریہ اگر انسانی وقار سے خالی ہو جائے، تو وہ خود ظلم کی ایک نئی شکل بن جاتا ہے۔
