لاہور(جدوجہد رپورٹ)وینزویلا کی انتہائی دائیں بازو کی اپوزیشن رہنما ماریہ کورینا ماچاڈوکو2025کا نوبل امن انعام دے دیا گیا ہے۔وہ اسرائیل نواز پالیسیوں اور امریکی صدر ٹرمپ کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے،جب ماچاڈو نے حال ہی میں یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے اجتماع ’پیٹریاٹس فار یورپ‘ میں شرکت کر کے اپنی سیاست کو کھل کر انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں اور صہیونی ریاست کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ اس اجلاس میں فرانس، اٹلی، پرتگال، چیک ریپبلک، آسٹریا، یونان اور پولینڈ کی فاشسٹ اور قوم پرست جماعتوں کے رہنما شریک تھے، جبکہ میزبانی اسپین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت ووکس کے سربراہ سانتیاگو آباسکل نے کی۔
’وینزویلین وائسز‘ کے مطابق اس اجلاس میں ’میک یورپ گریٹ اگین‘کے ساتھ ساتھ’ری کونکویستا‘کا نعرہ نمایاں تھا۔ یہ وہ تاریخی اصطلاح ہے،جو مسلمانوں اور یہودیوں کو اسپین سے نکالنے اور نوآبادیاتی توسیع کے آغاز سے جڑی ہے۔ اس فاشسٹ پس منظر کے باوجودماچاڈو نے خود کو مغرب کی تہذیبی جنگ کی’اتحادی‘قرار دیا اور اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی۔
ماچاڈو نے اپنے خطاب میں کہا کہ’وینزویلا آج مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ ایک عالمی جنگ ہے، اور آپ ہمارے اتحادی ہیں۔‘
ان کے مطابق وینزویلا کی حکومت نے’ہجرت کو دانستہ طور پر بطور ہتھیار استعمال کیا ہے‘تاکہ مغرب کو کمزور کیا جا سکے۔ یہ موقف نہ صرف وینزویلا کے لاکھوں جلاوطن شہریوں کو مجرم بنا دیتا ہے بلکہ پناہ گزینوں کے خلاف امتیاز کو بڑھاوا دیتا ہے۔
ماچاڈو کے سیاسی تعلقات اسرائیل کی حکمران جماعت لیکود پارٹی کے ساتھ مضبوط ہیں۔2020 میں ان کی جماعت وینٹے وینزویلا نے لیکود کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کیا جس کا مقصد ’جیوپولیٹکس، سکیورٹی اور مغربی اقدار‘ پر باہمی تعاون بڑھانا تھا۔ اسی تعلق کے تحت انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آ کر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کریں گی، جو2009 میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد منقطع ہوئے تھے۔
ماچاڈو کی سیاست امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔ وہ ٹرمپ نواز اور صہیونی بلاک کی ایک نمایاں حامی سمجھی جاتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اسرائیلی حکومت کو’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘میں مثالی شراکت دار قرار دیا۔
ان کے ساتھ ہی ارجنٹائن کے صدر خاویر میلے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی اسی بلاک میں شامل ہیں۔ میلے اپنے ملک کی آمریت (1976-1983) کے حامی مانے جاتے ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ’دہشت گردی کے خلاف‘ایک معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔
ماچاڈو کو نوبل انعام دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سامراجی ادارے انسانی حقوق اور امن کے نام پر انہی قوتوں کو نوازتے ہیں جو درحقیقت نسل پرستی، اسلام فوبیا اور نوآبادیاتی جارحیت کو نئی زندگی دے رہی ہیں۔
یورپی فاشسٹوں کے ساتھ صف اول میں کھڑی ماچاڈو کے لیے نوبل انعام نہ امن کی علامت ہے اور نہ جمہوریت کی۔یہ محض ان’مغربی اقدار‘کی توثیق ہے، جو آج بھی نسل کشی، مداخلت اور استعماری بالادستی پر قائم ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مادورو حکومت خود بھی اسرائیلی جاسوسی کمپنی Cellebriteکا سافٹ ویئر استعمال کر کے اپوزیشن کو کچلنے میں مصروف ہے۔
اگرچہ ماچاڈو اور اپوزیشن اتحاد 2024 کے انتخابات میں کامیابی کے دعوے کرتے ہیں، لیکن دھاندلی کے بعد کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہ کرنے کے باعث ان کی سیاست محض غیر ملکی مداخلت کی اپیلوں تک محدود ہو گئی ہے۔ جیسا کہ2019 میں ’عبوری صدر‘بننے والے خوان گوائیڈو کے انجام سے واضح ہے۔
جب ماچاڈو یہ کہتی ہیں کہ’وینزویلا کی جدوجہد اسرائیل کی جدوجہد ہے‘، تو وہ دراصل وینزویلا کے عوام کی حقیقی، بائیں بازو کی اور فلسطین نواز جدوجہد کو تنہا کر دیتی ہیں، یہ وہ جدوجہد ہے جو اندرون ملک سخت جبر کا شکار ہے اور بیرون ملک نامعلوم ہو کر رہ گئی ہے۔
آخرکار، نسل کشی، نسل پرستی اور اپارتھائیڈ مغربی سامراجی اور نوآبادیاتی تاریخ سے الگ نہیں۔ری کونکویستا کا جشن منا کر اور اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کر کے یورپی و لاطینی امریکی دائیں بازو نے خود ہی بتا دیا ہے کہ یہی ہیں وہ’مغربی اقدار‘جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔
اور وینزویلا کے عوام کے لیے یہ سبق باقی رہتا ہے کہ اگر انہیں مادورو سے آزادی حاصل کرنی ہے، تو انہیں ماچاڈو جیسے سامراجی بوجھ سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی۔
