نقطہ نظر

”سی پیک کوئی جادو کی چھڑی نہیں جس کے ذریعے گمبھیر مسئلوں کا حل نکالا جاسکے“

قیصرعباس

واشنگٹن ڈی سی میں وڈروولسن سینٹر کے ایشیائی امور کے ڈپٹی ڈائریکٹرمائیکل کیو گل مین(Michael Kugelman)نے ’روزنامہ جدوجہد‘ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ”سی پیک میں بین الاقوامی تعاون کے لئے ضروری ہے کہ اس کے نام سے دونوں ملکوں کے الفاظ خارج کیے جائیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ صرف دو طرفہ منصوبہ ہے“۔

انہوں نے کہاکہ ”پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان‘افغانستان میں امن کی کوششوں میں امریکہ سے کس طرح تعاون کرتا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کیا ٹھوس اقدامات اٹھاتاہے“۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر ایلس ویلس (Alice Wells) جوآج کل ڈیپارٹمنٹ آف ا سٹیٹ سے وابستہ ہیں، کے سی پیک پرایک متنازع بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کاکہنا تھاکہ”اس بیان کا مقصد امریکہ کے لمبی مدت کے ترقیاتی ماڈل کی جانب چین کو متوجہ کر ناتھا جسے روڈ اینڈ بیلٹ کے منصوبے کا حصہ بنا یاسکتا ہے“۔

اس انٹرویو میں مائیکل کیوگل مین نے کئی اہم مسئلوں پر تبصرہ کیاہے جن میں سی پیک پر حالیہ بحث اور امریکہ کے پاکستان، ہندوستان اور چین کے ساتھ تعلقات شامل ہیں۔

اسلام آباد میں سابق امریکی سفیر ایلس ویلس کے حالیہ بیان پر پاکستان میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بیان کا مقصد پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تجارتی تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟

میرا خیال ہے کہ ان کا اشارہ تجارتی تعلقات کی طرف نہیں تھا۔ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں پہلے ہی خواطرخواہ اضافہ ہواہے۔ میرے اندازے کے مطابق واشنگٹن تجارتی تعلقات کی مکمل بحالی اور سرما یہ کاری سے پہلے دو شعبوں میں پیش رفت دیکھنا چاہے گا: افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں میں پاکستان کا تعاون اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھر پور اور ناقابل تنسیخ اقدامات۔ ویلس اپنے بیان میں چین کی توجہ امریکہ کے ترقیاتی ماڈل کی جانب کرانا چاہتی تھیں تاکہ اسے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بنایا جا سکے۔

پاکستان کے منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر نے کہاہے کہ ”سی پیک کسی ملک کے خلاف نہیں ہے اور پاکستان اس میں کسی ملک کی حکمت عملی کا حصہ نہیں بننا چاہتا“۔ انہوں نے ملک میں امریکی سرمایہ داری کا خیرمقدم بھی کیاہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

اسلام آباد اور بیجنگ کی جانب سے دوسرے ممالک کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ خبروں کے مطابق ترکی اور ایران سمیت دوسرے ملکوں نے منصوبوں میں شامل ہونے کا عندیہ بھی دیاہے اگرچہ اس کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ بہتر راستہ یہ ہے کہ سی پیک میں حکومتوں کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کوشامل کیا جائے۔ جنرل الیکٹرک اور کچھ دوسری امریکی کمپنیاں پہلے ہی سی پیک کا حصہ ہیں۔ اگر چین اور پاکستان منصوبے میں دوسرے ملکوں کی شمولیت کے خواہش مند ہیں تو پہلاقدم یہ ہونا چاہیے کہ سی پیک کے نام سے پاکستان اور چین کے الفاظ م خارج کرائے جائیں تاکہ بین الاقوامی تعاون کو اجاگر کرنے میں مدد حاصل ہو۔

پاکستان میں چین کے سفیر یو جینگ نے ویلسن کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ”امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان کو بجلی کے منصوبوں کی ضرورت تھی؟“ آپ کا تبصرہ؟

بیجنگ اورا سلام آباد دونوں پاکستان میں بجلی کا بحران حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لئے چین کے سفیر کی یہ تنقید جائز نظر نہیں آتی اگرچہ ان کایہ خیال درست ہے۔ اس پورے بحران میں بجلی کی فراہمی ہی واحد مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں ٹرانسمیشن اور بجلی کا ضیاع جیسے کئی پیچیدہ مسائل بھی شامل ہیں۔ ویسے بھی ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ سی پیک کوئی جادوکی چھڑی نہیں ہے جس کے ذریعے ان گمبھیر مسئلوں کا حل نکالا جاسکے۔

جیسا کہ آپ نے بھی ویلسن کا تعارف کراتے ہوئے گزشتہ ہفتے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ”امریکہ کو پاکستان میں مقبولیت حاصل نہیں ہے‘‘۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے لئے پاکستان سے تعلقات رکھتا ہے اور ان کے حصول کے بعدمڑ کر دیکھتا بھی نہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟

ان دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے، افغانستان میں امن کا قیام اور ہندوستان سے تعلقات، ان سب امورکے بارے میں اختلا فات کی گہری خلیج موجود ہے۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ چین سے تعلقات بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ میں حائل ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے ملک سے امریکہ پارٹنرشپ کیسے استوار کر سکتا ہے جو اس کے ایک مخالف ملک کے قریب ہے اور جسے ٹرمپ کی انتظامیہ نہ صرف اپنا حریف بلکہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ بھی سمجھتی ہے۔

ویلسن کے مطابق چین پوری دنیا میں پانچ بلین ڈالر کے قرضے دے رہا ہے جن میں شفافیت نہیں ہے اور نتیجے کے طورپر دنیاکے مالی ادارے ان کی اصل نوعیت جاننے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل نہیں کررہا اور نوجوان پاکستانیوں کوان منصوبوں میں ملازمتوں کے مواقع نہیں مل رہے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ خدشات درست ہیں؟

میں اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتاہوں جن کا اظہار پہلے بھی کئی بار کیا جاچکا ہے، پاکستان میں ان حلقوں کی جانب سے بھی جوسی پیک کے حامی ہیں۔

کچھ مبصرین کے خیال میں امریکہ کا ہندوستان کی طرف جھکاؤ بھی پاکستان کو چین کی جانب دھکیلنے کا ایک اہم سبب ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں؟

درست۔ جس طرح پاکستان اور چین میں ہندوستان کے بارے میں تشویش انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے اسی طرح امریکہ اور ہندوستان میں بھی چین پر تشویش پائی جاتی ہے جو دونوں کو قریب کرتی ہے۔

لیکن ہمیں یادرکھناچاہیے کہ امریکہ، پاکستان، ہندوستان اور چین کے تعلقات کی یہ تصویر اتنی بھی واضح نہیں ہے جتنی نظر آتی ہے۔ پہلے تو یہ کہ امریکہ اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کی نوعیت پر پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ تیسری جانب ہندوستان اور چین اپنے اختلافات کے باوجود دوطرفہ تجارت اوربین الاقوامی سطح پر کئی امورپر تعاون بھی کرتے ہیں۔ اور آخرمیں یہ بھی کہ چین اور پاکستان میں دوستی کے دعوؤں کے باوجود چین کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کی سرزمین پر دہشت گرد سرگرمیوں کے ذمہ دار ان گروہوں کا سختی سے قلع قمع کرے جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔