اداریہ جدوجہد
پاکستان کی حالیہ سیاسی فضا ایک بار پھر مذہبی انتہا پسندی کے بھنور میں ہے۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج اور اس کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اب بھی انہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہے جنہیں اس نے خود تعمیر کیا تھا۔ جس زہریلے پودے کو ریاست نے دہائیوں تک اپنے مفادات کے لیے پانی دیا، آج وہ تناور درخت بن کر ریاستی اداروں کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کر رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ جب یہ پودا پھل دینے لگتا ہے تو اسی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں، مگر کبھی اس باغبان سے سوال نہیں کیا جاتا جس نے اسے بویا تھا۔
تحریک لبیک پاکستان کا ظہور محض ایک مذہبی تحریک کا ابھار نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے ریاستی تضادات، طبقاتی استحصال، اور مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کا خمیر اسی زمین سے اٹھا جس پر ضیاء الحق کے دور میں ’جہاد‘کے نام پر امریکی سامراج کی جنگ لڑی گئی۔ اس کے بیج اس وقت بوئے گئے جب ریاست نے مذہب کو قومی شناخت کی اساس کے طور پر متعین کیا اور ہر سیاسی مخالف، مزدور تحریک یا ترقی پسند قوت کو’کفر‘ کے لیبل سے خاموش کروانے کی روش اپنائی۔ اس کے بعداس زہریلے بیانیے کو ریاستی مفادات اور دھڑے بندی کے نتیجے میں متضاد مفادات کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ دہشت گردوں کے ’اچھے‘ اور ’برے‘ ہونے کی تقسیم سے لے کر مذہبی ووٹ بینک کی سیاست کے لیے یہ طریقہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ٹی ایل پی کا قیام خود اسی حکمت عملی کا ایک تسلسل تھا۔ ممتاز قادری کے پھانسی کے بعد اس کے گرد بننے والا بیانیہ ریاستی اداروں نے ایک حد تک سہولت کاری کے ساتھ پھیلنے دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں مزدور تحریکیں، کسان تنظیمیں، اور قوم پرست سیاست کو حاشیے پر دھکیلا جا رہا تھا، مذہبی جذبات کو منظم کرنے والے گروہوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ سڑکوں پر دھرنے دینے والے ان گروہوں کو کسی ’غیر ریاستی عنصر‘کے طور پر نہیں بلکہ مخصوص ریاستی حلقوں کے ’اثاثے‘ کے طور پر تحفظ حاصل رہا۔ فیض آباد دھرنے کی ویڈیوز آج بھی اس امر کی گواہ ہیں کہ یہ گروہ کن کے اشاروں پر متحرک ہوتے ہیں اور کیسے ان کے احتجاج کو گنجائش اور راستہ مہیا کیا جاتا ہے۔
ٹی ایل پی نے ایک منظم ریاستی سرپرستی میں ملک کے مختلف کونوں اور زیر انتظام علاقوں میں سیاسی کارکنوں، مزاحمتی تحریکوں اور انقلابیوں کو پچھلے قدموں پر دھکیلنے کے لیے ’توہین مذہب‘ کے مقدمات کا سہارا لیا۔ ایک منظم طریقے سے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ، مخالف فرقوں کے مذہبی اجتماعات کے دوران ہونے والی تقاریر اور سیاسی اجتماعات میں ہونے والی تقاریر کا جائزہ لینے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ سوشل میڈیا پر شاعری سے لے کر سیاسی بیان بازی تک کو توڑ مروڑ کر ’توہین مذہب‘ کے مقدمات قائم کرنے اور اس کے گرد لوگوں کے جذبات کو ابھار کر ٹی ایل پی کی ’سٹریٹ پاور‘ کو بڑھانے کا سلسلہ چلایا گیا۔ اس کام میں ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی اور سرپرستی اس گروہ کو حاصل رہی۔
ریاست کے مختلف دھڑوں کی باہمی کشمکش میں ایسے گروہ اکثر ’پریشر گروپ‘کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک دھڑا دوسرے دھڑے کو کمزور کرنے کے لیے مذہبی جذبات سے لبریز ہجوم کو میدان میں اتار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک لبیک کے ہر احتجاج میں ایک مخصوص وقت اور مخصوص سیاسی پس منظر نمایاں ہوتا ہے۔ کبھی ان احتجاجوں کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا ہے، کبھی کسی ادارے کی ’خودمختاری‘کا اظہارلگتا ہے۔تاہم یہ کھیل جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو یہ گروہ خود اپنی طاقت کا ادراک کرنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چند دنوں میں دارالحکومت کو مفلوج کر سکتے ہیں تو پھر انہیں کسی کے اشارے کی ضرورت نہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب پالے ہوئے یہ گروہ ’فرینکنسٹائن مونسٹر‘ بن جاتے ہیں، یعنی ایسی مخلوق جو اپنے خالق کے قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔
تحریک لبیک کے حالیہ احتجاج میں یہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے یہ گروہ دراصل اسی ریاستی بیانیے کا منطقی انجام ہیں جو مذہب کو سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کرتا رہا۔ آج جب ان کے خلاف کریک ڈاؤن ہو رہا ہے، تو یہ محض امن عامہ کا مسئلہ نہیں بلکہ اس پورے نظریاتی و سیاسی دھوکے کا انکشاف ہے جو حکمران طبقے نے دہائیوں سے عوام کے ساتھ کیا۔
تاہم اس مسئلے کو صرف ’سکیورٹی‘ یا’انتظامی‘مسئلہ سمجھنا غلط ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے گروہوں کی جڑیں محض مذہبی جنون میں نہیں بلکہ ایک ایسے معاشی اور سماجی نظام میں پیوست ہیں،جو محنت کش عوام کو غربت، جہالت، اور بے بسی میں دھکیلتا ہے۔ جب لاکھوں نوجوان تعلیم اور روزگار سے محروم ہوں، جب سیاسی پارٹیوں کا کردار محض مفاداتی جوڑ توڑ تک محدود ہو جائے، اور جب معاشرہ اپنی اخلاقی بنیادوں سے خالی ہو جائے، تو اس خلا کو ہمیشہ مذہبی فسطائیت جیسے رجحانات پر کرتے ہیں۔
ریاستی جبر سے وقتی طور پر کسی گروہ کو کچلا جا سکتا ہے، مگر اس کے پیچھے موجود سماجی حالات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آج ٹی ایل پی کو کچل دیا جائے گا تو کل اسی زمین سے ایک نیا نام اور نیا چہرہ ابھر آئے گا، کیونکہ وہ نظام جو ایسے گروہوں کو پیدا کرتا ہے، وہی بدستور قائم رہے گا۔
اس کے باوجودیہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے گروہوں کے حق احتجاج کا دفاع کیا جائے۔ ان کے احتجاج آزادی اظہار کا معاملہ نہیں بلکہ فسطائی طاقت کے مظاہرے ہیں،جو مزدور، خواتین، اقلیتوں، اور ترقی پسند آوازوں کے وجود کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔ اس لیے ان کی پرتشدد سرگرمیوں کے خلاف ریاستی جبر کو اصولی مخالفت کی بجائے ان تضادات کی بنیاد پر پرکھنے کی ضرورت ہے، جو اس سماج، ریاست اور ریاستی دھڑے بندی کے اندر موجود ہیں۔ جب ریاست ان گروہوں کو کچلتی ہے، وہ دراصل اپنے ہی بنائے ہوئے مہرے سے خوفزدہ ہوتی ہے، نہ کہ عوام کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوتی ہے۔تاہم بائیں بازو کی تحریکیں ایسے حالات میں ایسے گروہوں کے دفاع میں کھڑی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ وہ عوام کو یہ شعور دیتی ہیں کہ مذہبی فسطائیت دراصل ان دشمن حکمران طبقات اور ان کے دفاع پر معمور ریاست کا ہتھیار ہے۔
یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ مذہبی جنون کے خاتمے کے لیے محض ریاستی کریک ڈاؤن نہیں بلکہ ایک متبادل معاشرتی سوچ و نظریاتی فکر درکار ہے۔ ایسی سوچ و نظریاتی فکر جو مذہب کے نام پر سیاست کے استحصال کو رد کرے، جو تعلیم، روزگار، اور سماجی انصاف کو بنیاد بنائے، اور جو عوام کو مذہبی یا قومی شناختوں کے خول سے نکال کر طبقاتی شعور کے میدان میں لے آئے۔ جب تک محنت کش طبقے کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ اس کے دکھوں کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے، وہ انہی فسطائی گروہوں کے نعروں میں اپنی نجات تلاش کرتا رہے گا۔
تحریک لبیک کا مسئلہ اس لیے بھی خطرناک ہے کہ یہ محض مذہبی جماعت نہیں بلکہ ایک متشدد سیاسی رجحان ہے جو ریاستی و عدالتی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے جلسوں میں نفرت انگیزی، تکفیر، اور تشدد کی زبان کو مذہبی غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہی سیاست ہے جو مزدوروں کے حقوق، عورتوں کی آزادی، یا اقلیتوں کے وجود کو غداری قرار دیتی ہے۔ ایسے گروہوں کے خلاف لڑائی محض سکیورٹی آپریشن سے نہیں بلکہ ایک سیاسی و نظریاتی جدوجہد سے جیتی جا سکتی ہے۔
پاکستان کی 78سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ متشددمذہبی بنیاد پرستی ریاستی سرپرستی کے بغیر اپنی جڑیں سماج پر مضبوط کرنے میں مکمل طور پر ناکام و نامراد رہی ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں یکسرتبدیلی کے نتیجے میں مذہبی بنیاد پرستی کے سماج پر اس غلبے کو مکمل طور پر پسپا بھی کیا جا سکتاہے۔ تاہم اس تبدیلی کے نتیجے میں مروجہ نظام کی بقاء، حکمران طبقات کی لوٹ مار اور ریاستی جاہ و جلال کو بھی شدید خطرات لاحق ہوجانے ہیں۔
ایسی کیفیات میں ریاست کبھی بھی بنیاد پرستی کے خلاف کوئی سنجیدہ پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ وہ ہاتھ سے نکل جانے والے ایک بنیاد پرست گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تاریخی طور پردوسرے گروہ کی تیاری میں معمور ہو جاتی رہی ہے۔ گڈ اور بیڈ طالبان کی صورت میں یہ منظر اس خطے کے محنت کشوں نے دیکھا ہے، پھر دیگر فرقہ وارانہ تنظیموں کی پیداوار، ان کی سرپرستی اور ترویج کی صورت میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ آج ایک بار پھر خیبرپختونخوا اور افغانستان میں ایسے ہی چیلنجز درپیش ہیں اور ان کا حل بھی ماضی کی اسی روش کی صورت میں ہی نکالنے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ترقی پسندوں، مزدور تنظیموں، طلبہ اور خواتین کی تحریکوں کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ مذہبی فسطائیت کے خلاف لڑائی ریاستی اداروں پر انحصار سے نہیں بلکہ عوامی شعور کی تنظیم سے ممکن ہے۔ ان گروہوں کی طاقت عوام کی مایوسی اور ریاستی منافقت سے جنم لیتی ہے۔ اگر کوئی حقیقی متبادل موجود نہ ہو تو عوام اسی فریب میں مبتلا رہیں گے کہ شاید مذہبی نعرے ہی ان کے دکھوں کا علاج ہیں۔
یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ تحریک لبیک پاکستان کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک تاریخ کا منطقی انجام ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس میں ریاست نے ہر ترقی پسند آواز کو دبایا، مذہب کو سیاست کا ایندھن بنایا، اور محنت کش عوام کو اندھی تقلید کے اندھیروں میں دھکیلا۔ اب جب وہی اندھیرے ریاست کو نگلنے کے قریب ہیں، تو اصل سوال یہ نہیں کہ ان گروہوں کو کیسے کچلا جائے بلکہ یہ ہے کہ ایسے گروہ پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی ریاست بڑی ٹی ایل پی ہے جس کے بطن سے چھوٹی چھوٹی ٹی ایل پیز پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
جب تک پاکستان میں ریاست مذہب، سرمایہ داری، اور سامراجی مفادات کے ملاپ پر قائم ہے، تب تک تحریک لبیک جیسے عفریت پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس صورتحال سے نجات کا واحد راستہ ایک سیکولر، جمہوری، اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر ہے، جہاں انسان کی شناخت اس کے عقیدے سے نہیں بلکہ اس کی محنت، شعور اور برابری کے حق سے متعین ہو۔
