ہم سب نے فیصلہ کیاہے کہ رفیقی کی حمائت جاری رکھیں گے مگر انکل سے لڑا ئی بھی مناسب نہیں ہے۔

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
ہم سب نے فیصلہ کیاہے کہ رفیقی کی حمائت جاری رکھیں گے مگر انکل سے لڑا ئی بھی مناسب نہیں ہے۔
اب تو آپ کی دنیا میں کئی قسم کے سامراج پائے جاتے ہیں جو ایک جنبش ِانگشت سے پوری دنیا کو بھسم کرسکتے ہیں۔
وہ دن گئے جب اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں سکہ رائج الوقت تھی اب یہ بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔
ہمارے الباکستانی بھائی کبھی بھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔
کہانی ہما رے سما ج کے تین اہم ترین مسا ئل کے گرد گھرد گھو متی ہے: منگنی، نکاح اور شادی۔
”ویسے شکرہے مالک کا، وزیر بننے کے لئے لوگ پارٹیوں کے ترلے کرتے پھرتے ہیں مگر پارٹیاں میرے ترلے کرتی ہیں کہ سر وزیر بن جائیں پلیز۔“
بیٹا فوراً سے پیشتر گرین کارڈ کے لئے بھی درخوست دے ڈالو تو بہتر ہے کہ اسی پہ تمہاری گھریلو خوشحالی اور مستقبل کا انحصار ہے۔
مرغیوں سے حاصل ہونے والے انڈوں کو بڑے پیمانے پرتجارت کاذریعہ بنایاگیا۔ گھر گھر مرغی خانے کھل گئے۔