دنیا

[molongui_author_box]

بہتر زندگی کیلئے موت کی بازی لگانے پر مجبورانسان

کشتی کے ڈوبنے کی خبر آنے کے بعد مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔ عوامی رد عمل کے بعد پاکستانی حکمران اور سفارتخانے کے ذمہ داران نے پھرتیاں دکھانا شروع کی ہیں۔تاہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاملے کو ایک غیر قانونی اقدام تک محدود کر کے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بات مگر کوئی بھی سوچنے یا کہنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ سماج اتنا گھٹن زدہ،اتنا بوسیدہ اور اتنا پست ہو گیا ہے کہ اس میں انسان کی سانس گھٹ رہی ہے۔ ہر انسان یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہے۔ بہتر زندگی کیلئے موت کی بازی لگانے کیلئے تیار ہونے والے نوجوانوں کو خودکشی کے مترادف اس انتہائی اقدام تک جانے کیلئے تحریک دینے والی وجہ اتنی معمولی نہیں ہو سکتی۔

سنسر شپ، جنوبی ایشیا کا مہلک ترین وائرس!

ریاستوں کے طرز حکومت کے علاوہ کیا اور عوامل بھی ہر معاشرے میں صحافتی آزادی کے پیمانے تشکیل کرتے ہیں؟ کچھ محققین کے نزدیک صرف سیاسی ڈھانچے ہی نہیں، ملکی معیشت، غربت، قانونی محرکاتاور سماجی رسوم و روایات بھی آزادیء رائے کی راہیں استوار کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب معیشت بدحالی کا شکار ہو، ملک کے عوام غربت اورعدم مساوات میں پس رہے ہوں تو حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ میڈیا کے ذریعے عوام کو صحیح صورت حال سے بے خبر رکھا جائے اور سنسرشپ ان کا اہم ہتھیار بن جاتا ہے۔

سرمایہ داری نئے بحران کے دہانے پر؟

آج اس نظام کے تحت انسانی سماج ایسی ہی اجتماعی بربادی و بربریت کے خطرات سے دوچار ہے۔لیکن اس دنیا میں تاریخ کے سب سے بڑے اور دیوہیکل محنت کش طبقے کی موجودگی یہ امکان بھی کھولتی ہے کہ انسانیت خود تباہ ہونے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ و برباد کر کے نجات کی منزل کی جانب آگے بڑھ جائے۔

انڈیا نے انٹرنیٹ سنسرشپ کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا!

لیکن یہی ٹیکنالوجی آمروں، مقبول سیاسی لیڈروں اور لبرل حکومتوں کے لئے ایک نیا چیلنج بھی ہے جس کی روک تھا م کے نت نئے طریقے ڈھونڈ ے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں انٹر نیٹ پرجزوی پابندیاں عائد کر رہی ہیں، انہیں مکمل طور پر بند کر رہی ہیں یا سوشل میڈیا کی لوگوں تک رسائی ناممکن بنانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔

مسلم دنیا میں سامراج مذہبی بنیاد پرستی کا سر پرست اعلیٰ رہا ہے

5 جنوری 1957ء، امریکی صدر آئزن ہاور نے کانگرس سے مطالبہ کیا کہ انہیں اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ خلیج کی ہر اس قوم کو زیادہ معاشی و عسکری مدد، حتیٰ کہ امریکی پروٹیکشن فراہم کر سکیں، جسے کیمونزم سے خطرہ لاحق ہے۔ دو ماہ بعد کانگرس نے ایک قرار داد منظور کی جسے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ اس ڈاکٹرائن کا اصل نشانہ عرب قوم پرستی تھی (بحوالہ یعقوب، 2004، ص 1 تا 2)۔

سول ملٹری تعلقات اور پاک بھارت امن

پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد کی خلیج کارگل وار اور ممبئی حملوں کی وجہ سے بہت گہری ہے۔ بعد ازاں، کلبھوشن کی گرفتاری اوربھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری سے یہ خلیج مزید گہری ہوئی۔ اس خلیج کا بھرنا وقت کی ضرورت ہے جس کے لئے دونوں ملک کی قیادت کو انتھک محنت کرنا ہو گی اور دونوں اطراف کی فوجی لیڈرشپ کو اس کوشش کا احترام کرنا ہو گا۔

مراکش: ’ورلڈ کپ میں جیت سے عوام خوش لیکن حکمرانوں سے نفرت ختم نہیں ہوئی‘

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ خوشی وقتی رہے گی اور اگر فٹ بال کی فتح لوگوں کو ان کے خوفناک حالات زندگی کو چند دنوں کیلئے بھولنے میں مدد فراہم کرتی بھی ہے تو بھی محنت کش طبقے کی بے اطمینانی اور حقارت (الحکرۃ) کا احساس واپس آجائیگا۔ جس چیزکا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے وہ یہ ہے کہ اس بے اطمینانی کا اظہار حکمران طبقات کے حملے کے تشدد کے برابر اجتماعی تحریکوں میں کب ہو گا۔

بلاول کو بچر آف بنگال یا بچرز آف افغانستان پر تو کوئی اعتراض نہیں

معلوم نہیں اُن دنوں، جب یہ مہم چل رہی تھی، پیپلز پارٹی کا بچر آف گجرات بارے کیا موقف تھا۔ کوئی موقف تھا بھی یا نہیں۔ ہاں البتہ جب چند روز قبل حنا ربانی کھر طالبان کے ساتھ فوٹو سیشنز کر رہی تھیں، جس کا مقصد طالبان کی گلوبل امیج بلڈنگ تھا، تو اس فوٹو سیشن سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ پیپلز پارٹی کو اپنی نوکری سے غرض ہے…اس نوکری کو بچانے کے لئے وہ بچرز آف افغانستان کو بھی ہنس ہنس کر گلے مل سکتے ہیں۔

منافقت میں پیپلز پارٹی اور طالبان بھائی بھائی ہیں

مطالعہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے علاوہ، اسٹریٹیجک ڈیپتھ کی مقدس پالیسی کے مطابق جماعت اسلامی کے رکن مولانا چترالی بالکل درست اعتراض کر رہے ہیں کہ بھائی حنا ربانی کھر کو کابل بھیج کر ہم نے طالبان کے مردانہ جذبات کو مجروح کیا ہے۔