Month: 2021 دسمبر

[molongui_author_box]

خبردار! ہیپی نیو ایئر کہنا بھی حرام ہے

ہم پھر سے سال کے اس موڑ پر آ پہنچے ہیں جہاں جانے انجانے میں مسلمانوں سے نعوذباللہ گناہ کبیرہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں ’سال‘سے مراد وہ جال ہے جو اہل کفر نے بڑی گہری سازش کے تحت بچھایا ہے تا کہ ایک ہی ہفتے میں دو دفعہ مسلمانوں سے تدبیرانہ شرک کرایا جائے اور انھیں پتہ بھی نہ چلے۔

بے نظیر سے ہوئی ملاقاتیں اور یادیں

جب 1992ء میں وہ لاہور میں خالد جاوید جان کی کتاب ’میں باغی ہوں‘ کی رونمائی کے لئے آئیں تو ہال کے باھر ہمارا جدوجہد کاسٹال لگا ہوا تھا۔ میں ابھی پہنچا نہ تھا کہ وہ سٹال پر تشریف لائیں میرا پوچھا اور پھر لیون ٹراٹسکی کی ایک کتاب ”فاشزم کیا ہے، اس سے کیسے لڑا جائے“ جس کا ترجمہ خالد جاوید جان نے ہی کیا تھا، کی تما م پچاس کاپیاں اور درجنوں دیگر کتابیں خریدیں۔

اعلان تعطیل: جدوجہد کا اگلا شمارہ 10 جنوری کو شائع ہو گا

لاہور (ادارتی بورڈ) معزز قارئین! ’روزنامہ جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کی جانب سے ہم آپ کے لئے ایک پر مسرت نئے سال کی خواہشات کے ساتھ آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے ہماری حوصلہ افزائی جاری رکھی جس کا نتیجہ ہے کہ ’جدوجہد‘ کا نام ملک کے کونے کونے میں پہنچنے لگا ہے۔

گذشتہ دو سال کی طرح، امسال بھی ہم تقریباً دو ہفتے کی سالانہ تعطیل کااعلان کر رہے ہیں۔ اس تعطیل کا مقصد ایک طرف ہمارے کل وقتی عملے کو چھٹیوں کی سہولت فراہم کرنا ہے تو دوسری جانب اگلے سال کی منصوبہ بندی، ویب سائٹ کی ڈویلپمنٹ وغیرہ شامل ہوتی ہے۔

ہمارا اگلا شمارہ 10 جنوری کو شائع ہو گا۔
ہمیں امید ہے آپ کے تعاون سے ’جدوجہد‘ نئے سال میں سوشلزم کی مزید توانا آواز بن کر اپنا سفر جاری رکھے گا۔

کرسمس مبارک

ہمارا موقف ہے کہ اصل اقلیت سرمایہ دار، جاگیردار اور ان کے حواری مذہبی جنونی ہیں۔ محنت کش مزدور کسان اور مظلوم طبقے حقیقی اکثریت ہیں۔

سوشلزم اس جمہوری اکثریت کا نام ہے۔ بطور سوشلسٹ ہم اپنے مسیحی بہن بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے لئے برابری کی حقوق کی جدوجہد ہم میں ہراؤل کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

ہمیں امید ہے ہر آنے والی کرسمس امن، سلامتی اور برابری کی منزل کے قریب لے کر جائے گی۔

سمندر پار پاکستانی اور ملکی سیاست

ووٹ کے حق کا مسئلہ دوہری شہریت یا ان پاکستانیوں کا مسئلہ ہے جو پاکستان کی شہریت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک اہم مگر نہایت بحث طلب مسئلہ ہے۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

’طالبان خان کی جگہ طالبان کے سہولت کار کو ووٹ ملنا بھی تشویشناک ہے‘

واضح طور پر یہ پی ٹی آئی مخالف ووٹ تھا۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی سے عوام تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف اپنا فیصلہ دیا ہے۔ یہ نتائج اسٹیبلشمنٹ اور سلیکٹروں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہیں کہ بس اب بہت ہو چکا ہے۔