Akbar Notezai

اکبر نوتزئی کوئٹہ میں رہتے ہیں اور روزنامہ ڈان سے منسلک ہیں۔


سانحہ کیتھران: سفید کپڑوں میں لپٹے تابوت انصاف کے منتظر

’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ انصاف کی بالادستی ہو، تاکہ خواتین اور ان کے بچوں کے خلاف اس طرح کے المناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔‘ انکا کہنا تھا کہ ’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو روکا جا سکے۔ میں امید کے خلاف سردار عبدالرحمن کیتھران کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے آئی ہوں، کیونکہ انہوں نے صوبائی حکومت میں وزیر ہونے کے باوجود قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ میں یہاں اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے آئی ہوں، جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔‘

میری زندگی اور میرا عہد: عبد الصمد خان اچکزئی کی سوانح حیات

امید ہے کہ اچکزئی کی سوانح ”میری زندگی اور میرا عہد“ کے بعد صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ ان کے صاحب زادے محمد خان اچکزئی نے، جو بلوچستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ چار حصوں پر پھیلی اس تصنیف میں اس قوم پرست رہنما کی ابتدائی زندگی سے لے کر تعلیم، خاندان، سیاست میں دلچسپی، اسیری کے دن، ان کے اخبارات، سیاسی رفیقو ں کا احوال، دوسری شادی اور آزادی سے جڑے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں موت کی نئی کھیتیاں!

لسبیلہ اس سیلاب میں بلوچستان کے سب سے زیادہ تباہ ہونے والے ضلعوں میں سے ایک ہے۔ صوبے میں تباہ کاریوں سے نبٹنے والے ادارے ’Provincial Disaster Management Authority (PDMA)‘ کے مطابق یہاں اب تک 27 اموات ہو چکی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی اطلاع ہے کہ یہا ں چھ افراد زخمی ہوئے، 5 ہزار سے 8 ہزار گھروں کو نقصان پہنچاہے، 87 ہزار سے زیادہ مویشی لاپتہ ہیں اور 57 ہزار سے زیادہ ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ حب، بیلہ، اوتھل اور دریجی کے قصبے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

پیرکوہ: مُردوں کو غسل دینے کے لئے بھی پانی میسر نہیں رہا

ہیضے کی وبا اچھے حالات میں بھی انتہائی خطرناک ہوتی ہے، لیکن پانی کی شدید قلت اور مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کی کمی کے ساتھ مل کر یہ تباہی کا نسخہ بن سکتی ہے۔ یہی کچھ بلوچستان کے وسیع و عریض ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل پیر کوہ میں ہو رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (اوجی ڈی سی ایل) کی ایک بڑی سہولت سمجھا جانے والا یہ دور دراز کا قصبہ پانی کی شدید قلت کے ساتھ وبا پھیلنے کی دوہری پریشانی کا سامنا کر رہا ہے۔

آیت اللہ بمقابلہ آیت اللہ بمقابلہ عوام

”رفسنجانی اور اسلامی جمہوریہ کے دیگر سینئر اراکین جنہوں نے خامنہ ای کو پیڈسٹل پر کھڑا کیا، وہ تقریباً سبھی مر چکے ہیں یاکھڈے لائن لگائے جا چکے ہیں، خامنہ ای کے خلاف ردعمل اب صرف سڑکوں سے آسکتا ہے، ایرانی عوام کی طرف سے جو ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی حقیقتوں سے بہت مایوس ہیں۔“

تخت بلوچستان پر پرانے فرماں روا کی واپسی: ’تو چل میں آیا‘ کا کھیل جاری!

آج تین سال بعد وہی کھیل پھر دہرایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان اسی انداز میں ایوان اقتدارسے باہر کر دئے گئے ہیں اورعبدالقدوس بزنجو ایک بارپھربلا مقابلہ انتخاب جیت کر 29 اکتوبر کو سنگھاسن پر بیٹھ چکے ہیں۔ ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ وہ ایک کمزور ترین سیاسی مہرہ ہیں جس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں اور یہی ان کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔

’سب سے دلچسپ یہی غم ہے میری بستی کا، موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے‘

”ہم اپنے اعمال تو درست کرتے نہیں، پھر زلزلے تو آئیں گے“۔ اس نے مزید تشریح کی۔ محمد مبین کی اپنی رائے ہوتی ہے اور گفتگو کا ہنر بھی جانتا ہے۔ مجال ہے جو دوسرے کو بات کا موقع دے۔ اس نے یہ سارا خطبہ اس لئے دیا کہ میں نے گانے لگانے کی فرمائش کی تھی تا کہ سفر تھوڑا اچھا کٹ جائے۔

عطا اللہ مینگل: بلوچ سیاست کا ایک انقلابی عہد تمام ہوا

سردار عطا اللہ مینگل کی وفات کے ساتھ ہی ایک ایسے سیاسی دور کے کتب خانہ کا خاتمہ ہو گیا ہے جس پر ابھی تحقیق کی جانی باقی تھی۔ انہوں نے کبھی اپنی سوانح عمری نہیں لکھی۔ بقول ان کے بیٹے اختر مینگل کے ایک بار جب ان سے لکھنے کو کہا تو جواب ملا: ”سوانح عمری لکھنے کے لیے سچ لکھنا پڑتا ہے اور مجھے جھوٹ بولنا آتا نہیں“۔