Farooq Sulehria

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔


یہ مارچ ہے نہ لانگ ہے

عمران خان کا سارا ریڈیکل ازم بھی اگلے چند دنوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ فوج کھل کر ان کی مخالفت میں سامنے آ گئی ہے۔ اگر فوج منقسم تھی اور اس کے بعض دھڑے عمران کی پشت پناہی کر رہے تھے تو یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس اس بات کا اظہار تھی کہ فوج نے اپنی صفیں از سر نو درست کی ہیں۔ بلاشبہ یہ پریس کانفرنس فوج کے نروس ہونے کی بھی علامت تھی لیکن یہ اس بات کا برملا اظہار تھا کہ اب یہ لڑائی براۂ راست تحریک انصاف اور فوج میں ہے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلاول بھٹو کے یوتھیاپے

سچ تو یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اُس ہائبرڈ نظام کا تسلسل ہے جسے عمران خان سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی فرق ہے تو شائد یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنے ذاتی مفادات کے لئے کچھ چوں چرا کرتے تھے، شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے منہ سے تو اُف اللہ بھی نہیں نکل رہا۔

ایران میں عورت انقلاب: پاکستانی سوشلسٹ، فیمن اسٹ کھل کر حمایت کریں

خطے میں ہونے والی اس اہم ترین پیش رفت بارے پاکستان کا بایاں بازو اور فیمن اسٹ تحریک عمومی طور پر خاموش نظر آ رہی ہے۔ ہونا اس کے الٹ چاہئے۔ ایک کی جیت سب کی جیت اگر سوشلسٹ اصول ہے تو اس اصول کے تحت بائیں بازو اور فیمن اسٹ تحریک کو کھل کر ایران میں جاری انقلاب کی حمایت کرنی چاہئے۔

منافقت، موقع پرستی کا انجام نا اہلی

عمران خان کو 2018ء میں دھاندلی کے ذریعے لایا گیا۔ یہ نوے کی دہائی نہیں تھی۔ تحریک انصاف پر مبنی ہائبرڈ رجیم نے ہائبرڈ رجیم کی اپنی چیخیں نکلوا دیں۔ یہ منصوبہ رول بیک کرنے کا فیصلہ ہوا۔ نواز شریف اور بھٹوخاندان تو موروثی سیاست کرتے ہیں۔ ایک کے ہاتھ سے کرسی جاتی ہے تو وہ اپنی اولاد کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے چپ چاپ گھر چلا جاتا ہے۔
عمران خان موروثی سیاست کی بجائے شخصیت پرستی کا نمونہ تھا۔ عمر بھی ستر سال۔ اولاد نے سیاست میں آنا نہیں۔ انتظار کے لئے زیادہ سال بچے نہیں۔ بوکھلاہٹ میں ہر ممکن طریقے سے اقتدار بچانے کی کوشش ہوئی۔ اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ کھوئی ہوئی مقبولیت کافی حد تک بحال ہو گئی مگر فوج ایسی بد ظن ہوئی کہ اب عمران خان کو اگلی باری بھی شائد کبھی نہ ملے۔

عمران خان کی فوج مخالفت سے سویلین سپریمیسی کی جدوجہد آگے نہیں بڑھے گی

پی ٹی آئی ٹریڈ یونین، طلبہ یونین، آزاد میڈیا اور برادشت پر یقین نہیں رکھتی۔ مرکز میں اس کا تین سالہ دور حکومت ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اس کا ریکارڈ دیکھ لیا جائے…صاف پتہ چل جائے گا کہ یہ گروہ جمہوریت دشمن ہے۔ طلبہ، اساتذہ، صحافی، مزدور…جو ان کے ہاتھ چڑھا، اس پر انہوں نے لاٹھیاں برسائیں اور تشدد کیا۔ نہ طلبہ یونین پر پابندیاں ختم کیں، نہ بلدیاتی ادارے بننے دئیے، نہ ٹریڈ یونین کو کوئی سہولت فراہم کی۔ گراس روٹس جمہوریت کے بغیر لبرل طرز کی جمہوریت بھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اس محاذ پر تحریک انصاف کی کارکردگی ثابت کرتی ہے کہ ان کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔

ضمنی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کی وجہ: قوم یوتھ کا وینا ملک ڈس آرڈر

یاد رہے ماہرین نفسیات نے ابھی تک سٹاک ہولم سنڈروم کو ایک بیماری نہیں مانا۔ اس لئے اس کا کوئی علاج بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ وینا ملک ڈس آرڈر البتہ ایک خطرناک بیماری ہے۔
ہاں مگر یہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔ یہ سماجی و سیاسی و نظریاتی بیماری ہے۔ اس کی تشخیص ماہرین نفسیات نہیں، ترقی پسند سیاسی کارکن کر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا علاج بھی ممکن ہے۔ اس بیماری کا علاج ہے سوشلزم۔
اس علاج کے نتیجے میں ان مراعات کا خاتمہ کرنا درکارہوتا ہے جن کے نتیجے میں قوم یوتھ وجود میں آتی ہے۔

روزمرہ کے مسائل: برتن سکھا کر ان میں کھائیں پئیں

گھروں کی ٹونٹیوں میں جو پانی ٹنکی سے آ رہا ہے اگر وہ پینے کے قابل نہیں تو ظاہر ہے ایسے پانی سے اگر برتن دھوئے جائیں تو لازمی ہے کہ برتنوں کے سوکھنے تک انہیں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ جب برتن سوکھ جائیں گے تب ہی ٹنکی والے پانی میں موجودجراثیموں کا خاتمہ ہو گا۔

دانشور اور سوشلزم

لیون ٹراٹسکی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ولادیمیر لینن کے ہمراہ انقلاب روس کی قیادت کرنے والے وہ دوسرے اہم ترین رہنما تھے۔ انقلاب کے بعد وہ سرخ فوج کے سربراہ رہے۔ ٹراٹسکی نے بے شمار ثقافتی و سیاسی سوالات پر سوشلسٹ نظریہ دان کے طور پر لکھا۔ ان کے دوست انہیں ’قلم‘ کہہ کر پکارتے کیونکہ وہ لکھنے پر ملکہ رکھتے تھے۔ ٹراٹسکی کا شمار بیسویں صدی کے بہترین دماغوں اور نظریہ سازوں میں ہوتا ہے۔ ان کا زیر نظر طویل مضمون دراصل میکس آڈلر کے ایک کتابچے پر تبصرہ تھا۔ کتابچہ اور ٹراٹسکی کا تبصرہ، دونوں 1910ء میں شائع ہوئے۔ میکس آڈلر آسٹرین سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان اخبار کے مدیر تھے۔ ان کا کتابچہ ویانا سے شائع ہوا۔ ٹراٹسکی کا تبصرہ سینٹ پیٹرز برگ کے ایک اخبار نے روسی زبان میں شائع کیا۔ مندرجہ ذیل ترجمہ انگریزی زبان سے کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجمے میں شامل مترجم برائن پیرس کی وضاحتوں کو سرخ رنگ میں ہائی لائٹ کیا گیا ہے: مدیر

’انقلاب ایران کے بعد اتنی بڑی بغاوت پھوٹی ہے‘

”اگر ہم ایران میں اس بنیاد پرست تھیوکریٹک حکومت کا تختہ الٹ دیں تو پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ یہ پورے خطے کو بدل دے گا اور بہتری کی امید پیدا ہو گی، لہٰذا ایرانیوں کی جدوجہد آزادی کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے تحت دیکھیں۔ ہمارے خطے کی خواتین نے ترکی، لبنان، سوڈان، عراق وغیرہ میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے ملکوں کی حقوق نسواں تحریک کیلئے ضروری ہے کہ ایران کی خواتین اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ لہٰذا سب تحریک میں شامل ہوں“۔

پی ٹی آئی: مائنس ون نہیں ہو گا، پوری سلیٹ صاف ہو گی

اگر عمران خان کو سائڈ لائن کیا گیا تو پورا پراجیکٹ ہی ختم ہو جائے گا۔ اصل سوال یہ بنتا ہے کہ کیا تحریک انصاف نامی پراجیکٹ لپیٹ دیا جائے گا یا اسے متبادل کے طور پر زندہ رکھا جائے گا۔ زیادہ امکان ہے کہ پر کاٹ کر، متبادل کے طور پر یہ پراجیکٹ جاری رکھا جائے گا مگر یہ محض ایک امکان ہے۔