Haris Qadeer

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


پاکستان کی ڈیجیٹل مردم شماری اور جموں کشمیر کا المیہ

اس متنازعہ خطے کی تمام اکائیوں میں بسنے والی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل محنت کشوں کے مابین اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی بنیادیں رکھنے کیلئے حکمت عملی اپناتے ہوئے قومی، لسانی اور ثقافتی شناخت اور آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک فیڈریشن کے قیام کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد کی فتح مندی کیلئے بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم عبوری پروگرام کے ذریعے درست سمت میں جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عمل ان نتائج کے حصول کو قریب سے قریب تر کرتا جائے گا۔

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔

جموں کشمیر: بجلی پر سبسڈی اور رعایتیں، فائدہ کسے ہوتا ہے؟

کسی بھی خطے کے وسائل پر پہلا حق اس خطے میں بسنے والے شہریوں کا ہوتا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کی فیڈریشن کا آئینی حصہ نہیں ہے۔ اس لئے اس خطے کے پاکستان کی فیڈریشن کے ساتھ تعلق کو صوبوں کی طرز پر قائم کرنے اور دیکھنے کا عمل ہی غلط ہے۔ اس خطے سے 3 ہزارمیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے اور مزید منصوبہ جات تعمیر ہونے کی صورت یہ پیداوار 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس خطے کی بجلی کی کل ضرورت 350 سے 400 میگا واٹ کے درمیان ہے۔

’طالبان پاکستان میں چاہئیں نہ افغانستان میں: ورنہ دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘

جتنی بھی جابرانہ طاقتیں ہیں، یا آؤٹ فٹس ہیں، انہیں پالیسی فارمولیشن کا حصہ نہ بنایا جائے، وہ ہمیں ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ وہی آؤٹ فٹس جنہیں ہم ملکی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، بعد میں پھر ہمارے لئے ہی تھریٹ ثابت ہوتے ہیں۔ معاشی خدشات کے بارے میں سوچی، فرینڈلی پالیسی بنائیں، غیر مداخلت کی پالیسی بنائیں، کبھی بھی مداخلت نہ کریں تاکہ کسی کو بھی مداخلت کا بہانہ یا ضرورت محسوس نہ ہو۔

پاکستان نیشنل آرٹس کونسل خط اقلیتوں سے متعلق ریاستی پالیسی کا عکاس

یہ تقریری مقابلہ ’جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی‘ کے عنوان پر منعقد کروایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کو جنت ارضی قرار دیتے ہوئے ایک عرصہ سے بنیاد پرست اور عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ جموں کشمیر ایک جنت ہے اور بھارت کافروں کا ملک ہے، جسے جنت کسی صورت نہیں مل سکتی۔

انسداد پولیو مہم کے نام پر پشتونوں کی سٹیرئیو ٹائپنگ

اس کے علاوہ پاکستان کے پولیو ایریڈیکشن پروگرام کے یوٹیوب چینل پر درجنوں ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن میں پشتون عوام کو پولیو مہم مخالف قراردیا گیا ہے۔ ’پہلا قدم‘ اور ’اڑان‘ کے نام سے دو شارٹ فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، جن میں پشتون علاقوں میں لوگوں کی انسداد پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت اور پھر انہیں اس کی حمایت کرنے پر قائل کئے جانے کی کہانیاں بتائی گئی ہیں۔ پولیو سے متاثر ہونے والے نوجوانوں کے کردار بھی پشتون ہی دکھائے گئے ہیں۔

لالہ لطیف آفریدی کا قتل: جدوجہد کا استعارہ ایک مبینہ سازش کا شکار

عبداللطیف آفریدی پورے پاکستان میں لالہ لطیف کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ کمیونسٹ رہنما، انسانی حقوق کے علمبردار اور آمریت دشمن کے طور پر اپنی ایک پہچان رکھتے تھے۔ انہیں بعد ازاں پشتون قوم پرست رہنما کے طور پر پہچان ملی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ایسے پہلے پشتون قوم پرست سیاستدان بھی قرار دیا گیا، جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی اور خیبرپختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف درج تقریباً تمام ہی مقدمات کی پیروی بھی کرتے رہے۔

کشمیر بنے گا ’نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام‘: اربوں کی اراضی 2 لاکھ میں الاٹ

محکمہ جنگلات نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ اراضی پر قیمتی شاہی درخت موجود ہیں۔ پاکستان میں جنگل کا رقبہ پہلے ہی بین الاقوامی معیار سے بہت کم ہے۔ راولاکوٹ شہر کے نواح میں جنگل کی اراضی کو تعمیراتی مقاصد کیلئے استعمال میں لانے کے سنگین ماحولیاتی اثرات مرتب ہونگے۔ فاریسٹ ایکٹ 2017ء کے مطابق جنگل کا رقبہ صرف قومی مقاصد کیلئے متبادل اراضی فراہم کر کے ہی دیا جا سکتا ہے۔

سوشلسٹ کرنل کی قیادت میں بنگلہ دیش کا ’سپاہی انقلاب‘ جو 2 ہفتے بعد ناکام ہو گیا

’ہمارا انقلاب محض ایک قیادت کو دوسری قیادت سے تبدیل کرنا نہیں ہے۔ یہ انقلاب ایک مقصد کیلئے ہے، یعنی مظلوم طبقات کے مفاد کیلئے۔ اس کیلئے مسلح افواج کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کئی دنوں تک ہم امیر طبقے کی فوج تھے۔ امیروں نے ہمیں استعمال کیا ہے۔ ان کے اپنے مفادات کی 15 اگست کے واقعات ایک مثال ہیں۔ تاہم اس بار ہم نے نہ تو امیروں کیلئے بغاوت کی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کی ہے۔ اس بار ہم نے ملک کے عوا م کے شانہ بشانہ بغاوت کی ہے۔ آج سے قوم کی مسلح افواج اپنے آپ کو ملک کے مظلوم طبقات کے محافظ کے طور پر استوار کریں گی۔‘

کشمیر کی واحد کامیاب سوشلسٹ کونسلر: ’عوام نے سیاسی اجارہ داری کو شکست دی‘

میں سمجھتی ہوں کہ یہ میری شخصیت کی کامیابی نہیں ہے، یہ انتخابی منشور اور پروگرام کی فتح اور کامیابی ہے۔ لوگوں نے مجھے نہیں بلکہ انتخابی پروگرام کو ووٹ دیا ہے۔ تعصبات اور مال و دولت کی بنیاد پر انتخابات کو ہائی جیک کرنے والوں کا راستہ روکنے کا بھی میرے خیال میں یہی ایک طریقہ ہے کہ نظریات، پروگرام اور جدوجہد کی بنیاد پر لوگوں کو منظم کیا جائے۔