Haris Qadeer

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


سوات: فضل اللہ کو تین سال منظم ہونے کا موقع ملا، اب ایسا ممکن نہیں

ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ طالبان مالاکنڈ ڈویژن سے کبھی گئے ہی نہیں تھے، انکی محفوظ پناہ گاہیں آج بھی موجود ہیں۔ سرحداور باڑ بھی عام لوگوں کیلئے رکاوٹ ہیں، دہشتگرد جب چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد انہیں لایا بھی گیا ہے لیکن اہم چیز انہیں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ریاست کی پشت پناہی نہ ہو تو طالبان کو مقامی عوام چند لمحوں میں ختم بھی کر سکتے ہیں اور ان کی دہشت کا بھی خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ اب لوگ تنگ آ چکے ہیں، اب اس قتل عام کو دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

جموں کشمیر: بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں، خدشات اور امکانات

سیاسی جماعتیں البتہ اس صورتحال میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ مرکزی دھارے کی سیاسی قیادتیں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رکوانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ تاہم قوم پرست اور ترقی پسند جماعتیں ایک مرتبہ پھر انتخابات کے حوالے سے شش و پنج کا شکار ہیں۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تمام دھڑوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلے کیا ہے، تاہم کچھ دھڑوں کے مرکزی عہدیداران اور کارکنان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کمربستہ ضرور ہیں۔ دوسری طرف ترقی پسند کہلانے والی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

موجودہ حکومت بھی ہابرڈ رجیم ہے، اگلا سیٹ اپ بھی ہابرڈ ہی ہو گا: عائشہ صدیقہ

یہ ایک کھچڑی ہے، بلکہ وہ تو فوری پک جاتی ہے، یہ فوری نہ پک پانے والی کھچڑی ہے۔ تین چیزیں اکٹھی چل رہی ہیں، معاشی کرپشن، سیاسی کرپشن اور دانشورانہ کرپشن حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہاں اب خواب لینے والے اور بات کرنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ دو انتہائیں ہیں، یا تو مذہب کی طرف دھکیلا جاتا ہے، ہر مسئلے کو مذہب کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، یا پھر مذہب سے پرے کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز ایک جگہ پر جا کر پھنس چکی ہے۔ سرمایہ داری کا گوڑھا رابطہ نیشنل ازم سے ہے۔ نیشنل ازم سرمایہ داری کا ایک حصہ ہے، جو عقل کو بالکل ماؤف کر دیتا ہے۔ انسانیت، اصول پرستی اور خوابوں کی بات کہیں پیچھے دور چلی جاتی ہے۔ جب خواب لینے والے ہی نہیں رہ گئے، تو پھر ہم آگے کیا بڑھیں گے۔

ضمنی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کی وجہ: قوم یوتھ کا وینا ملک ڈس آرڈر

یاد رہے ماہرین نفسیات نے ابھی تک سٹاک ہولم سنڈروم کو ایک بیماری نہیں مانا۔ اس لئے اس کا کوئی علاج بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ وینا ملک ڈس آرڈر البتہ ایک خطرناک بیماری ہے۔
ہاں مگر یہ کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔ یہ سماجی و سیاسی و نظریاتی بیماری ہے۔ اس کی تشخیص ماہرین نفسیات نہیں، ترقی پسند سیاسی کارکن کر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا علاج بھی ممکن ہے۔ اس بیماری کا علاج ہے سوشلزم۔
اس علاج کے نتیجے میں ان مراعات کا خاتمہ کرنا درکارہوتا ہے جن کے نتیجے میں قوم یوتھ وجود میں آتی ہے۔

اسلام آباد: سینٹورس میں آتشزدگی کی تحقیقات کیخلاف کشمیریت پر مبنی احتجاج

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیر اعظم تنویر الیاس کے ملکیتی شاپنگ و رہائشی مال ’سینٹورس‘ میں آتشزدگی کے واقعہ کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کے خلاف تنویر الیاس اور ان کے وزرا تحریک انصاف حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ صحافی اورقوم پرست کہلانے والے سیاسی کارکنان کے ذریعے بھی اس اقدام کو کشمیریوں کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دیکر نہ صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کیا جا رہا ہے، بلکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کی بھی کال دی گئی تھی۔ اس تمام سرگرمی کا مقصد اسلام آباد انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر تحقیقات پر اثر انداز ہونے سے زیادہ کچھ بھی نہیں لگ رہا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں، جنہیں آگے چل کر زیر بحث لایا جائے گا۔

ایران: ملا آمریت کو للکارتا ’عورت انقلاب‘

ایران میں بائیں بازو کی قوتوں کی بڑے پیمانے پر عدم موجودگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں کی تنظیموں، انقلابی تنظیمیں اور قیادتوں کو ایرانی محنت کشوں کی اس تحریک کے ساتھ نہ صرف بھرپور طریقے سے یکجہتی کرنا ہو گی بلکہ جلا وطن ایرانی بائیں بازو کے رہنماؤں کو واضح انقلابی متبادل کو ایرانی محنت کشوں تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملائیت کے جبر کے خاتمے اور محض سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے سے ایرانی محنت کشوں کا مقدر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ گو ملا اشرافیہ کی آمریت کا خاتمے ایرانی سماج میں انتہائی آگے کا قدم ہوگا اور محنت کش طبقے کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جرات فراہم کرے گا۔ تاہم ایرانی محنت کش طبقے کی نجات کی حتمی منزل کبھی بھی جمہوریت کی بحالی کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ ایران میں محنت کش طبقے کی فتح اس خطے میں نئے انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

’انقلاب ایران کے بعد اتنی بڑی بغاوت پھوٹی ہے‘

”اگر ہم ایران میں اس بنیاد پرست تھیوکریٹک حکومت کا تختہ الٹ دیں تو پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ یہ پورے خطے کو بدل دے گا اور بہتری کی امید پیدا ہو گی، لہٰذا ایرانیوں کی جدوجہد آزادی کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے تحت دیکھیں۔ ہمارے خطے کی خواتین نے ترکی، لبنان، سوڈان، عراق وغیرہ میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے ملکوں کی حقوق نسواں تحریک کیلئے ضروری ہے کہ ایران کی خواتین اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ لہٰذا سب تحریک میں شامل ہوں“۔

مسلم دنیا کی اپنے نوبل انعام جیتنے والوں سے دشمنی کیوں؟

پاکستان کے لوگوں نے اپنی دونوں نوبل انعام یافتہ شخصیات کو متفقہ طور پر ہیرو کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اگر ڈاکٹر سلام کو ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے مسلسل ریاستی و معاشرتی بے حسی کا سامنا ہے تو ملالہ کا نام سنتے ہی دائیں بازو کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔

شکار پور: امداد شہروں تک محدود، گوٹھ بیماری، بھوک و لاچاری کے مسکن

’کسانوں اور ہاریوں کو ہونے والے نقصانات کے ازالہ کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔ راشن کی فراہمی یقینی بنائی جائے، بجلی کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں اور دیہاتیوں کو بیماریوں سے بچانے کیلئے مچھر مار سپرے اور طبی سہولیات کی فراہمی کو ترجیح دی جائے، تاکہ مزید جانی و مالی نقصان سے ان دیہاتوں کے باسیوں کو بچایا جا سکے۔‘

الیکشن جنوری میں، اگلی حکومت خان کی؟

پس نوشت: نیرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روم جل رہا تھا، وہ بانسری بجا رہا تھا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اور اس کا پالتو میڈیا عصر حاضر کا نیرو ہے۔ ملک جل تو نہیں رہامگرڈوب ضروررہا ہے، ایوان اقتدار میں بیٹھے نیروایکسٹینشن کی بانسری بجا رہے ہیں۔