یہاں ایک بات واضح ہو گئی ہو گی کہ تمام ٹوٹکوں کا رخ ہجوم سے وابستگی کے اظہار کی طرف ہے۔

کنور خلدون شاہد ایک صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ’دی ڈیپلومیٹ‘ کے پاکستان میں مقیم نمائندہ ہیں، ’دی سپیکٹیٹر‘ کے لیے بطور کالم نگار کام کرتے ہیں اور پاکستانی سیٹائر اخبارات ’دی ڈیپینڈنٹ‘ اور ’خبرستان ٹائمز‘ کے شریک بانی ہیں۔
یہاں ایک بات واضح ہو گئی ہو گی کہ تمام ٹوٹکوں کا رخ ہجوم سے وابستگی کے اظہار کی طرف ہے۔
ہم پھر سے سال کے اس موڑ پر آ پہنچے ہیں جہاں جانے انجانے میں مسلمانوں سے نعوذباللہ گناہ کبیرہ سرزد ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں ’سال‘سے مراد وہ جال ہے جو اہل کفر نے بڑی گہری سازش کے تحت بچھایا ہے تا کہ ایک ہی ہفتے میں دو دفعہ مسلمانوں سے تدبیرانہ شرک کرایا جائے اور انھیں پتہ بھی نہ چلے۔
یقینا اسلامی فتوحات کی آنے والی ناگزیر لہر کے لئے ہی پاکستان کرکٹ نے تبلیغی جماعت کا رخ کیا تھا۔ جن احمقوں کا پھر بھی یہ پوچھنا ہے کہ یہ اسلام کے کونسی فقہ کی کامیابیاں ہیں ان سے گزارش ہے کہ ایسے فرقہ وارانہ مسائل ہم پی ایس ایل میں ٹیموں کو فرقوں سے منسلک کر کے حل کر لیں گے: مثلاً وہابی یونائیٹڈ، دیوبندی گلیڈی ایٹرز، بریلوی قلندرز وغیرہ۔ آپ تو بس اب اگلے ورلڈ کپ کی تیاری کریں جس میں پاکستان ٹاس جیت کر پہلے جزیہ لینے کا فیصلہ کیا کرے گا۔
ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا کہ آج پاکستان کا وزیر اعظم وہ شخص ہے جو پاکستان کرکٹ اور طالبان دونوں ٹیموں کی نمائندگی کر چکا ہے۔
امید ہے آپ کے تمام خدشات اب تک دور ہو چکے ہوں گے۔ اگر ابھی بھی کوئی شکوک و شبہات ہیں تو میں بس یہی کہوں گا کہ آپ سعودی ولی عہد کی باتوں میں نہ آئیں اور صرف زمینی حقائق پرغور کریں۔ سعودی عرب اتنا ہی شریعت پسند اور عورت دشمن ہے جتنا وہ ہمیشہ سے آل سعود کے ما تحت رہا ہے لہٰذا ہمیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے محمد بن سلمان کے ہاتھ پر ویسے ہی بیعت کر لینی چاہئے جیسے ان کے آباؤاجداد کے ہاتھوں پر کرتے آئے ہیں۔
اگر کوئی حیات عسکریت پسند مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ لشکر، سپاہ، جیش یا کوئی ملتا جلتا لقب اپنے گروہ کے سابقہ میں اور کوئی اسلامی دعوی لاحقہ میں شامل کر لیں۔
یہاں پر واضح ہو جائے کہ چونکہ کاوش اصلاح پسند بیانئے کو فروغ دینے کی ہے تو پراجیکٹ میں فرقہ واریت کی بالکل گنجائش نہیں ہو گی اور فقہ کی بنیاد پر چندہ اکھٹا کر کے الگ الگ منسلک کو اپنا اپنا علیحدہ نائٹ کلب بنانے کی سہولت ہر گز نہیں دی جائے گی۔ جماعت الڈسکو تمام مسلمانوں اور امت انسانی کی جماعت ہو گی۔
آخر کار ہمیں وہ قیادت نصیب ہو ہی گئی جس کے ہم بلاشبہ مستحق تھے۔
موسمی اور چندہ سے دوری تو میں برداشت کر لوں گا، دین سے دوری نہ سہوں گا نہ کسی مسلمان کو سہنے دوں گا۔