عہدِ رفتہ میں جینے کاگر جانتے ہیں!

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
عہدِ رفتہ میں جینے کاگر جانتے ہیں!
نہ ابر برسا، نہ غنچے کھلے، نہ جام آئے
اب خشک زمینوں پہ اگائے گا شجر کون
فیض حالات کی تاریکی میں بھی امید کی ایک شمع روشن رکھتے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا فیض ہے۔
برسوں سے کوئی آ س کا سورج نہیں نکلا
رقصِ بسمل کا اہتمام کرو
ہم سب نے فیصلہ کیاہے کہ رفیقی کی حمائت جاری رکھیں گے مگر انکل سے لڑا ئی بھی مناسب نہیں ہے۔
جدید دور کی ٹیکنالوجی نے جہاں آج میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا ہے وہاں ان کے لئے نئی مشکلات بھی کھڑی کر دی ہیں۔
قیامِ پاکستان کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں بلکہ اس وقت کی انتظامی و سماجی حقیقتوں اورسیاسی مصلحتوں کا منطقی نتیجہ تھا
پہلے تو یہ کہ امریکہ اور ہندوستان کے تجارتی تعلقات مشکلات کا شکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کی نوعیت پر پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ تیسری جانب ہندوستان اور چین اپنے اختلافات کے باوجود دوطرفہ تجارت اوربین الاقوامی سطح پر کئی امورپر تعاون بھی کرتے ہیں۔ اور آخرمیں یہ بھی کہ چین اور پاکستان میں دوستی کے دعوؤں کے باوجود چین کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کی سرزمین پر دہشت گرد سرگرمیوں کے ذمہ دار ان گروہوں کا سختی سے قلع قمع کرے جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔