وہ دن گئے جب اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں سکہ رائج الوقت تھی اب یہ بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
وہ دن گئے جب اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں سکہ رائج الوقت تھی اب یہ بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔
اس انٹرویومیں انہوں نے مسلم معاشروں میں آزادی اظہار سے لے کرصحافیوں کی حالتِ زار اور جمہوریت سے تحریکِ نسواں تک ہر موضوع پر اظہارخیال کیاہے۔
اس دور کے جلتے ہوئے مسائل اس کی بیشتر نظموں کا عنوان ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں لگ بھگ دس ہزار افراد نوے کی دہائی سے لاپتہ ہیں۔
کشمیر، جو پہلے ہی دنیا کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی تھا، مزید فوج تعینات کردی گئی۔
کہانی ہما رے سما ج کے تین اہم ترین مسا ئل کے گرد گھرد گھو متی ہے: منگنی، نکاح اور شادی۔
جا گو!
جتنی تبدیلیاں میری زندگی میں آئی ہیں اس سے زیادہ میرے گاوں، پاکستان اور امریکہ میں آئی ہیں۔
طبقاتی تفریق پر کچھ اشعار قیصر عباس کے قلم سے…
’’ان حالات میں آپ میرے اور انڈیا یا پاکستان میں ان لوگوں کے دکھ کا اندازہ نہیں کر سکتے جو خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔‘‘