پھولوں کی مصنوعیت کی شکار تتلیوں پر کچھ الفاظ قیصر عباس کے قلم سے…

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
پھولوں کی مصنوعیت کی شکار تتلیوں پر کچھ الفاظ قیصر عباس کے قلم سے…
ویسے تو امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے اسرائیل کی ہمنوا رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کے انتخاب کے بعد اس کے سامراجی ہتھکنڈے کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
بیٹا فوراً سے پیشتر گرین کارڈ کے لئے بھی درخوست دے ڈالو تو بہتر ہے کہ اسی پہ تمہاری گھریلو خوشحالی اور مستقبل کا انحصار ہے۔
کتاب قاری کو صدر ٹرمپ کی مرکزی انتظامیہ کا وہ رُخ دکھاتی ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر عملے کی تبدیلی اورپیشہ ورانہ افراتفری سیاست کے سنہری اصول بن چکے ہیں۔
رنج کا ساماں بھی وہی ہے…
صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مشرقِ وسطیٰ آ ج ایک خوفناک کشیدگی کے دہانے پر کھڑاہے۔
مرغیوں سے حاصل ہونے والے انڈوں کو بڑے پیمانے پرتجارت کاذریعہ بنایاگیا۔ گھر گھر مرغی خانے کھل گئے۔
ادبی اور سیاسی پس منظر میں وہ شعرا جو سرائیکی صوبے کی تحریک سے کسی نہ کسی حوالے سے وابستہ ہیں عوام الناس میں بہت مقبول ہیں۔
حال ہی میں امریکہ نے اس معاہدے کے خلاف اپنے سخت موقف میں تر کی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
کچھ قطعات قیصر عباس کے قلم سے…