پاکستان

[molongui_author_box]

بھٹو چورن اب عمرانی پنی میں

بینظیر بھٹو اپنے تجزیئے میں بطور نتیجہ لکھتی ہیں کہ 1977ء میں پاکستا ن میں جو حالات خراب ہوئے، (جسکے بعد مارشل لا آیا اور بھٹو کو پھانسی دی گئی) وہ سب اس لئے برپا ہو سکا، کیونکہ چند افراد نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔ چند افراد یہ سب کچھ روک سکتے تھے۔ ملک میں ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات کو ایم این اے لیڈر شپ روک سکتی تھی اور چیف آف آرمی اسٹاف اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کی بجائے ملک کے فائدے کو ترجیح دے سکتے تھے۔

حکمرانوں کے نظام پر محنت کش کا عدم اعتماد

حکمران جماعت اور اپوزیشن اتحاد دونوں کے پاس ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے، کردار کشی کرنے اور بہتان تراشی کے سوا محنت کش عوام کو درپیش مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لا علاجی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ کسی میں یہ جرات نہیں ہے جو آئی ایم ایف کی پالیسوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرے اور ان کے قرضے ضبط کرنے کی بات کر سکے۔ اپوزیشن اتحاد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہی تو قیامت آ جائے گی۔ حکمران جماعت قومی سلامتی اور خود مختاری کا پرانا چورن فروخت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہی ہے۔

”بھگت سنگھ کے نظریہ اور میراث کی پاکستانی نصاب میں جگہ“

بھگت سنگھ اور ان کی میراث کو ہماری نصابی کتب میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید برآں، ماہرین تعلیم کو بھی اپنے مقامی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تحقیق کرنے اور مقامی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، چاہے ان کے عقائد کچھ بھی ہوں۔ حکومت کو یادگاری طور پر کم از کم ایک تاریخی نشان کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کی پہل کرنی چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو مقامی انقلابی کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

عدم اعتماد: کٹھ پتلی حکومت کیخلاف جعلی اپوزیشن کی ڈرامہ بازی

عوام اب ان میں سے کسی پر اعتماد نہیں کرینگے کیونکہ ان جعلی تبدیلیوں سے محنت کشوں اور عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور سامراجی مالیاتی اداروں کی عوام دشمن پالیسیوں اور احکامات کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ ان سب ظلمتوں کے خلاف حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محنت کشوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہو گی۔ تمام مالیاتی اداروں کے قرضوں کو ضبط کرنے، سامراجی معاشی پالیسیوں کو مسترد کرنے کیلئے ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کو استوار کرنا ہو گا۔

حکمرانوں کی سیاسی قلابازیاں: عام عوام کیلئے کسی کے پاس کچھ نہیں!

عمران خان کا جانا ٹھہر گیا ہے، اس کی وجہ اس کی معاشی پالیسیوں کی شدید عدم مقبولیت اور اس کی انتہائی بری گورننس ہے۔ یہ ایک انتہائی نالائق حکومت ثابت ہوئی ہے۔ جس نے بلا چوں چرا ں آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکے، ان کی تمام شرائط مان لیں۔ مہنگائی کے باعث عوامی ردعمل پر واپسی کا سفر انہیں مزید مہنگا پڑ رہا ہے۔ ابھی بھی آئی ایم ایف ان پر ناراض ہے کہ عمران خان نے وعدہ کے باوجود عوام کے لئے کچھ ریلیف کا اعلان کیوں کیا ہے؟

زرعی زمین چین، سعودی عرب کو لیز پر دینا پاکستان پر ’بین الاقوامی قبضہ‘ ہے

اس ضمن میں پاکستان کو محتاط رہنا چاہیے اور اپنی زرعی زمین کا زیادہ حصہ غیر ملکی سرمایہ کاروں یا کمپنیوں کو لیز پر نہیں دینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر، اس کا انجام ایک جدید دور کی کالونی کے طور پر ہو سکتا ہے جسے خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عدم اعتماد جمہوریت کو نہیں ہائبرڈ نظام کو دھچکا ہے

یہ سارے واقعات عوام کے اجتماعی شعور میں محفوظ رہیں گے۔ ممکن ہے کسی انقلابی متبادل کے ابھرنے تک وہ ایک اور دھوکا کھائیں یا سیاست سے بیگانگی میں وقتی طور پر اضافہ ہو لیکن وہ ہائبرڈ سانپوں کے ہاتھوں دوبارہ ڈسے نہیں جائیں گے۔ یہی اصل عدم اعتماد ہے۔ عوامی عدم اعتماد۔

تحریک انصاف اب ووٹ وننگ عنصر نہیں رہی!

ہمیں اپوزیشن سے بھی کوئی بہتری کی امید نہیں۔ ان کی معاشی پالیسیاں بھی عمران خان طرز کی ہیں۔ ایک سے جان چھوٹے گی تو دوسرے میں پھنس جائے گی۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنا متبادل بیانیہ تعمیر کرنا ہے۔
لاہور میں 27 مارچ کو بائیں بازو کی ایک نئی سیاسی طاقت کے ظہور کا دن ہے۔ آئیے! آپ بھی مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ اتوار 27 مارچ ناصر باغ لاہور کے عظیم اجتماع میں شرکت کریں۔