تنویر احمد کشمیری نژاد برطانوی صحافی و سماجی کارکن ہیں۔

تنویر احمد کشمیری نژاد برطانوی صحافی و سماجی کارکن ہیں۔
بیروزگاری، بھوک اور غربت کو مزدوروں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے ملکی برآمداد کی مسابقت کو بڑھانے کی پالیسی کو مزدور پھر ناکام کریں گے۔ معقول اجرت کی خاطر مزدوروں نے پہلے بھی جدوجہد کی اب بھی کرنی ہو گی۔ 60 سال پہلے خان کی طرح اس خان کی بھی چھٹی کرنی ہو گی۔ اس کے لئے کرونیوں، امیروں اور ان کی حکومت کے محاذ کے خلاف مزدورں کی تنظیم سازی اور محاذ بنانا ضروری ہے۔
جلسہ کی ایک اور سٹار سپیکر آصفہ بھٹو تھی جو بلاول بھٹو کو کرونا کے باعث شریک نہ ہونے پر انکی نمائندگی کرنے آئی تھی۔ آصفہ کی پہلی پبلک تقریر میں کوئی زیادہ مواد نہ تھا مگر وہ پراعتماد ہو کر تھوڑی دیر تقریر کرتی رہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ سلیکٹڈ کے ظلم و جبر کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ ملتان کے اجتماع میں جمع ہوئے۔ عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے، اس سلیکٹڈ کو اب گھر جانا ہو گا۔
ورلڈ بینک کی پنشن کے سہارے اچھی زندگی گزارنے والے ہمارے ماہر معاشیات کو اتنا بھی علم ہو گا کہ محنت کشوں کی چھوٹی سی پنشن سے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں کھاتے نہیں کھلتے۔
پاکستان میں جولائی کے بعد پہلی مرتبہ کورونا کیسوں کی ایک روز میں تعداد تین ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
یہ اجتماعی اور اشتراکی قیادت ہی ہوتی ہے جو افراد کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کاموجب بنتی ہے۔ یہ سیاسی تربیت ہی نوجوانوں میں اعتماد کا باعث بنے گی۔ اور یہی اعتماد نوجوانوں کو دیوہیکل جبر سے ٹکرانے کی شکتی دے گا۔ پھر حالات کے مطابق طلبہ یونین بحالی کے لئے اجلاس ملک کے کلیدی شہروں میں منعقد کرتے ہوئے آگے کی لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔
ایک واضح انقلابی پروگرام کے بغیر عوامی دکھوں کا مداوا ممکن نہیں ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے، ٹیکس وصول کے اہداف بڑھانے کیلئے نئے ٹیکسوں کا نفاذ کی شرائط پر رضامندی ضروری ہے، اس کے علاوہ شرح سود میں اضافے کی شرط بھی پوری کرنی ہو گی جو رواں سال میں 13.25 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد کر لی گئی تھی۔
ماضی میں مسائل کے حل کےلئے بارہا تحریک میں شامل ہونے والے مرد و خواتین محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ جس جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر نہ صرف پاکستان کے محکوم و مظلوم عوام کے ساتھ جوڑنا ہو گا بلکہ لداخ، تبت، سنکیانگ و جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی میں پرونا پڑے گا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بغاوت کے یہ قدم برصغیر جنوب ایشیا کے سوشلسٹ مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
ان حالات میں حکمران طبقے کی سیاست دیکھیں تو عوام کے ان انتہائی تکلیف دہ، زندگیوں کو جہنم بنا دینے اور مسلسل بڑھتے جانے والے معاشی مسائل کیساتھ اس کا دور دور تک کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد ’پی ڈی ایم‘ اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں اگر بیروزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر کبھی ہوتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی واجبی اور فروعی انداز میں اور ثانوی مسائل کے طور پر کیا جاتا ہے۔