پاکستان

[molongui_author_box]

نواز شریف کی واپسی

جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقات اور پالیسی سازوں کے پاس اتنی گہرائی میں سوچنے کی نہ سکت ہے نہ وقت۔ لہٰذا وہ گھوم پھر کے پھر اسی تجربے کو دہرانے جا رہے ہیں جو ماضی میں کئی بار فیل ہو چکا ہے۔ شاید وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ تاریخی طور پر ناکام نظاموں کے نمائندے دوررس دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چہرے جتنے بھی تبدیل ہوتے رہیں‘ حکومتیں آتی جاتی رہیں‘ محنت کش عوام کے لئے ایسے نظاموں میں ذلت اور بربادی کے سوا کچھ مضمر نہیں ہوتا۔ جب تک انہیں اکھاڑا نہ جائے‘ معاشرے ترقی اور آسودگی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔

کشمیر کی تحریک اور خواتین کی جدوجہد

پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں تقریباََپچھلے 5 ماہ سے بجلی کے بلوں میں بے جا ٹیکسزکے خلاف اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے مختلف شہروں میں پر امن احتجاج اور دھرنے دیے جا رہے تھے۔ صورتحال اس وقت ایک اہم موڑ اختیار کر گئی جب گزشتہ ماہ عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی طرف سے بل نہ جمع کروانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اس فیصلے کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سول نافرامانی کی یہ تحریک پوری ریاست کے چپے چپے میں پھیل گئی۔ پانچ ستمبر کو مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی،میرپور اور دیگر علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شٹرڈؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منظم کیے اور بجلی کے بلوں کو جلایا اور دریا برد کیا گیا۔

نکل جاؤ پاکستان سے…

موجودہ کیفیت میں سب سے اہم یہ ہے کہ جن افغانوں پر یہ فسطائی چھری چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کی اس حالت زار کا ذمہ دار کون ہے؟ افغانستان تو ہمیشہ ایسا نہ تھا جن بربادیوں کی جانب اس کو سامراج اور اس کے حواریوں نے دھکیل دیا ہے۔ 1978ء کا افغان ثور انقلاب وہ روشن مینارہ تھا جو سوویت یونین کی سٹالنسٹ افسر شاہی سے آزادسوشلسٹ بنیادوں پر استوارہوا تھا۔ زرعی اصلاحات، خواتین کی خرید و فرخت سمیت تمام خواتین دشمن قوانین کا خاتمہ، جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے قرضہ جات کا خاتمہ جس کا مطلب 80 فیصد کے قریب دیہاتی آبادی پر سے غلامی کی طوق اتارنا تھا‘ یہ اس انقلاب کی حاصلات تھیں کہ جن کے پیش نظر امریکی سامراج اور اس کے حواریوں نے اس پر یلغار کر دی۔ اس انقلاب کو کچلنے کے لئے ضیا آمریت کے تحت ڈالر جہاد کے لیے پوری ریاستی مشینری متحرک کی گئی۔

امہ کی چیمپئین جماعت، جمعیت افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے پر چپ

افغانستان میں جاری چالیس سالہ جنگ کو جہاد قرار دے کر تو ان دو جماعتوں نے شائد ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر ورغلا کر جنت کے سفر پر روانہ کیا (ان دونوں جماعتوں کی قیادت البتہ خود کبھی شہادت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ڈیورنڈ لائن کے اس پار نہیں گئی)۔ افغانستان کے خون خرابے میں اگر سویت روس، امریکہ، سعودی عرب اور پاکستانی ریاست کا کردار شرمناک ہے تو مندرجہ بالا دو جماعتیں بھی افغانستان میں افرا تفری کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی بغاوت کے 5 ماہ: میڈیا خاموش

اس تحریک کا سب سے اہم اور کامیاب ہتھیار بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ ماہ اگست میں پونچھ اور میرپورڈویژن میں بجلی کی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا، جبکہ ماہ ستمبر میں مظفرآباد ڈویژن نے بھی بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ شروع کیا۔ مجموعی طور پر 70 فیصد سے زائد بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور بجلی کے بل شہریوں سے جمع کر کے مختلف شہروں میں نذر آتش بھی کئے گئے اور کچھ شہروں میں بلوں کی کشتیاں بنا کر انہیں دریاؤں میں بہایا گیا۔

ریاست امیر کے لئے ماں جیسی، غریب کے لئے ڈائن جیسی

ان امیر لوگوں کے لئے تو پاکستان ایک فلاحی ریاست بھی ہے اور ریاست ماں جیسی بھی لیکن پاکستان کے غریب شہریوں کے لئے ریاست کسی ڈائن سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر ہم ملک میں موجود سوشل پروٹیکشن یعنی عوامی فلاح کے منصوبوں پر نظر ڈالیں۔

ملک میں صرف 10 فیصد ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے۔ ان میں بھی اکثریت فوجی و سرکاری ملازمین کی ہے۔ بنیادی پنشن ہر مرد عورت کا حق ہونا چاہئے۔ ایک مخصوص عمر (اس کی حد 65 سال مقرر کی جا سکتی ہے) کے بعد ہر شہری کو پنشن ملنی چاہئے تا کہ وہ بڑھاپے میں بھی، کسی پر بوجھ بنے بغیر، با وقار زندگی گزار سکے۔

جموں کشمیر: عوامی حقوق تحریک کی کال پر لاکھوں بجلی بل نذر آتش و دریا برد

تاجروں، ٹرانسپورٹروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام 9 مئی کو یہ تحریک راولاکوٹ سے شروع ہوئی تھی۔ جمعرات کو مسلسل دوسرے ماہ بجلی بلوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تاہم مظفر آباد ڈویژن میں یہ پہلا مہینہ تھا، جس میں بجلی بل جمع کروانے سے انکار کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ذرائع کے مطابق 30 سے 40 فیصد تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کامیاب ہو سکا تھا۔ تاہم رواں ماہ برقیات کے ذرائع کے مطابق 90 فیصد سے زائد بجلی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے کان کنوں کی حالت زار پر ایک نظر

پاکستان کے کان کنوں کو روزانہ کی بنیاد پر مشکل اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو نہ صرف ان کی صحت بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ بہتر حفاظتی اقدامات، بہتر کام کے حالات اور لیبر قوانین کے سخت نفاذ کی فوری ضرورت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکومت، کان کنی کمپنیوں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ دیرپا تبدیلی لائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان کے کان کنوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کا تحفظ کیا جائے۔

ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کا ’ماحولیاتی انصاف مارچ‘

گزشتہ جمعہ کو شکارپور میں ہری جدوش کمیٹی اور پاکستان کسان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ کسانوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے تاریخی ماحولیاتی انصاف مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا کے امیر ممالک کے وعدوں پر عمل درآمد بھی شامل تھا۔

جلد باز قوم: اتنی جلدی کہ ٹرین کے نیچے آنے پر بھی تیار ہیں

اس معاشرے میں ثقافتی گراؤنٹ کی انتہا یہ ہے کہ لوگ تیزی سے گزرنے کیلئے ٹرین کے نیچے آنے کیلئے تیار ہیں، لیکن مہم جوئی کی حد تک اس تیز رفتاری کی حد یہ ہے کہ شاید چند سو میٹر بعد ان میں سے کئی ایک نے کافی زیادہ وقت کیلئے رکنا ہے۔ گھر پہنچ کر بھی انہوں نے شاید کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا۔ پاکستانی معاشرہ وقت پر کوئی بھی ایونٹ منعقد نہ کرپانے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہر تقریب کا مہمان ہمیشہ دیر سے پہنچتا ہے، ہر تقریب تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے نچلی سطح تک کا ہر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ شادی کی تقریب میں دولہا بھی ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتا ہے۔ تاہم سڑک پر تیزی اس طور نظر آتی ہے کہ شاید اس قوم سے زیادہ مصروف دنیا کی کوئی اور قوم نہیں ہے۔