پاکستان

[molongui_author_box]

دو ہزار سے زائد پاکستانی سالانہ خود کشی کرتے ہیں

ہمیں گھیرا ڈالے تمام بری خبروں میں ایک روشنی کی کرن گزشتہ سال کیا جانے والا نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کا خاتمہ ہے،جو خودکشی کو جرم قرار دیتا تھا۔ یہ قانون 1800ء کی دہائی کا تھا اور بالآخر 2022ء کے آخر میں ذہنی صحت کی تنظیموں اور عوام کی طرف سے برسوں کی لابنگ اور وکالت کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اس قانون کے خاتمے نے متعدد مثبت تبدیلیوں کا راستہ صاف کر دیاہے۔ خودکشی کے پھیلاؤ کے بارے میں اب درست تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں یہ ناممکن تھا، کیونکہ مریض اور لواحقین مقدمہ چلائے جانے کے خوف سے اس کی اطلاع نہیں دیتے تھے۔ جیسا کہ اب خودکشی کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کی جا سکتی ہے، اس لیے ہم پریشانی میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال کے لیے بہتر رسائی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

پاکستان: بجلی کی مد میں بھیانک لوٹ مار کی تاریخ

تمام آئی پی پیز کو فوری طور پر قومی تحویل میں لیا جائے۔ حکمرانوں نے اپنے لئے پالیسیاں بنا کر، جو گزشتہ 27 سالوں کے دوران اس ملک کے شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے، اس کا تخمینہ لگا کر ان آئی پی پیز کے مالکان کی دولت کو ضبط کر کے وہ رقم واپس حاصل کی جائے۔ صرف ان دو اقدامات کے ذریعے سے بجلی کی پیداواری لاگت کئی سو گنا کم ہو جائے گی۔
اسی ضبط شدہ دولت کو استعمال میں لاتے ہوئے ٹرانسمیشن لائنوں کو بہتر کیا جائے تو 34 فیصد لائن لاسز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں سستے ترین ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی ہی ملکی ضرورت سے زیادہ ہو سکتی ہے، جس کی بنیاد پر شہریوں کو ٹیکس شامل کر کے بھی 2 سے 5 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج: مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

ہر شہر، قصبے، گلی، محلے اور دیہات میں شہریوں کو عوامی کمیٹیاں قائم کرتے ہوئے خود کو منظم کرنا ہوگا۔ پرتشدد واقعات، جلاؤ گھیراؤ اور ہر طرح کی مہم جوئی کو ترک کرتے ہوئے عوام کی وسیع تر پرتوں کو منظم کرنے اور پر امن احتجاج میں شامل کرنے کا سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا۔ 300یونٹ مفت بجلی کے حصول، بجلی کے بلوں سے ہر طرح کے ٹیکسوں کے خاتمے،نجی پاور پلانٹس کو حکومتی تحویل میں لئے جانے اور فکس ٹیرف کو مقرر کئے جانے سمیت اشیائے خوردونوش اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور دیگر مطالبات کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنا کر آگے بڑھا جائے۔ حکمرانوں کی اس لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کرنے اور جدوجہد منظم کرتے ہوئے اس خطے میں حقیقی تبدیلی بنیادی رکھنے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

جموں کشمیر: تحریک پاکستان میں پھیلنے سے کیا فرق پڑے گا؟

یہ درست ہے کہ جموں کشمیر اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں اس تحریک کے مطالبات کی نوعیت میں فرق ہے۔ تاہم دونوں اطراف احتجاج کی کامیابی ایک دوسرے کی حمایت اور یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جموں کشمیر کے شہری خطے میں پیدا ہونے والی 3190.22میگاواٹ بجلی سے مقامی ضرورت کی 354میگاواٹ بجلی کی مفت فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے سرینگر اور گلگت بلتستان کی طرز پر گندم پر سبسڈی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

منظور پشتین کو تجویزوں سے زیادہ یکجہتی اور ہمدردی کی ضرورت

رواں ماہ 18 اگست کو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ابھرنے والی عوامی حقوق کی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے ایک بارپھر اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ 7 سال سے پرامن طور پر احتجاجی جلسے کرتے ہوئے چند بنیادی عوامی مطالبات ریاست کے سامنے رکھنے والی اس تحریک کی قیادت نے اس بار قدرے جارحانہ الفاظ کا استعمال کیا۔ تاہم گولیوں، لینڈ مائنز اور بم دھماکوں کا نشانہ بنائے جانے والوں کے الفاظ بھی ریاست کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔

پاکستان میں سپر ٹیکس

حکومت کی جانب سے ٹیکس سال 2022ء میں زیادہ آمدنی والے افراد پر سپر ٹیکس کا تصور دوبارہ متعارف کرایا گیا۔ ٹیکس سال 2022ء کے لیے سلیب کے حساب سے شرحیں مقرر کی گئی تھیں، جن کی زیادہ سے زیادہ شرح 4 فیصد تھی۔ بعض مخصوص شعبوں کے حوالے سے 10 فیصد کی بہتر شرح صرف ٹیکس سال 2022ء کے لیے تجویز کی گئی تھی اور بینکنگ کمپنیوں کے لیے ٹیکس سال 2023ء کے لیے 10 فیصد سپر ٹیکس لاگو ہونا تھا۔

وزیرستان: ہیروں کی کان بھی نکل آئے، فرق نہیں پڑے گا

تقریباً تین ہفتے قبل حامد میر وزیرستان سے پاکستان کے شہریوں کو یہ خوشخبری دے رہے تھے کہ اربوں کھربوں کا تانبہ زمین تلے دفن ہے جسے نکال کر پاکستان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ یہ پروگرام اور پھر کیپیٹل ٹاک میں اس پر بحث اس سرکاری پراپیگنڈے کا حصہ تھی جو مستقبل سے مایوس عوام کو دلاسا دینے کے لئے کیا جا رہا ہے۔

’فوج دشمنی‘ تحریک انصاف کی نئی منافقت ہے

جماعت کے اندر تو کیا تحریک انصاف پارٹی سے باہر یعنی ملک میں جمہوریت کی بھی حامی نہیں۔ جس طرح فوج انتخابات کو اس حد تک برداشت کرتی ہے کہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے عین اسی طرح تحریک انصاف بھی انتخابات پر اسی حد تک یقین رکھتی ہے جس حد تک ان کی جیت یقینی ہو (چاہے اس کے لئے انتخابات میں دھاندلی کرنی پڑے جیسا کہ 2018ء میں ہوا۔ وہ اس انتخابی دھاندلی کا یہ کہہ کر دفاع کریں گے کہ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے)۔

خان کی گرفتاری: رد عمل کیوں نہ ہوا؟

یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کو ریاست مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی تھی۔ کوئی موثر اپوزیشن موجود نہیں ہے۔ 9 مئی کے ریاستی تشدد کے بعد تحریک انصاف تتر بتر ہو چکی تھی اور آدھی سے زیادہ قیادت نے پارٹی چھوڑ دی۔ تحریک انصاف کی حقیقت 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد ہی سامنے آئی، اس کے غبارے سے ہوا تیزی سے خارج ہوئی۔ اس کا جو قد مصنوعی طور پر بڑھا ہوا تھا وہ بھی اپنی اصلی جگہ پر آ گیا، جو سوشل میڈیا نے اس کی ہوا باندھی ہوئی تھی وہ بہت تیزی سے خارج ہوئی۔

عورت کے مسائل اور ان کا حل

پاکستان جیسے پسماندہ معاشرے میں عمومی بیانیہ یہ سننے کو ملتا ہے کہ عورت ”صنفِ نازک“ ہے لیکن انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلابات کے دوران خواتین نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگر اس ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ اس سماج کی کوئی بھی بڑی تبدیلی خواتین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس وحشت اور بربریت کے چنگل سے نکلنے کا واحد راستہ مل کر جدوجہد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ظلم سہنے والا ہر انسان اپنا حق مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لے گا۔ اِس سماج میں بسنے والے محنت کش جب بھی کسی انقلابی بغاوت میں اتریں گے، عورت اس میں ہر اؤل ہو گی۔