یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو محفوظ انداز سے اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں اور اپنے بچوں کو بھی ایسا کرنے کا عادی بنائیں۔

یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو محفوظ انداز سے اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں اور اپنے بچوں کو بھی ایسا کرنے کا عادی بنائیں۔
چند سوالات کر کے یہ جان سکتے ہیں کہ آیا آپ اس لت کا شکار ہو چکے یا آپ کی وابستگی بامقصد اور صحت مند رجحان کی حامل ہے۔
خود نمائی اور سرکاری پالیسیوں نے، جن کی وجہ سے بد دیانتی کا کلچر فروغ پاتا ہے، پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب تک سخت اقدامات نہیں کئے جاتے، اس زوال پذیری کو روکنا ممکن نہیں۔ ہمیں اب اس کام کا آغاز کر دینا چاہئے۔
ممکن ہے یہ تجربہ کرتے ہوئے آپ کو بھی اسی طرح شرم آئے جس طرح مجھے یہ مضمون لکھتے ہوئے۔ اگر اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہم زمین کے گول ہونے پر بحث کر رہے ہیں تو ہماری جگہ گھومتی ہوئی زمین کی پیٹھ پر نہیں، اس کے پیٹ میں ہونی چاہئے!
ان مذہبی قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جس قدر توہمات عام ہوں گے، اس قدر ان کی سیاست آگے بڑھے گی۔ یہ سلسلہ پاکستان تک محدود نہیں۔ امریکہ ہو یا ہندوستان، مذہبی جنونی قوتیں اپنی سماجی اور سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے کے لئے عوام دشمن، غیر منطقی اور غیر سائنسی نظریات آگے بڑھاتے ہیں۔
دستاویزی فلم ان کی علمی اور تحقیقی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔
عام لوگوں کے مسائل صر ف تجرباتی لیباریٹریوں میں حل نہیں کیے جاسکتے بلکہ ان کے سماجی ڈھانچے اور اقتصادی رشتوں کو سمجھنے کے بعد ہی حل ہوسکتے ہیں۔
سوشل میڈیا آج کل عمرو عیار کی وہ زنبیل ہے جس کے اندر سے ہر مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سائنس کی مخالفت صرف ہماری درسی کتب تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں سائنس اور ریاضی کے بہت سے اساتذہ اپنے پیشے سے ہی خوش نہیں ہیں۔