نقطہ نظر

[molongui_author_box]

سوات: فضل اللہ کو تین سال منظم ہونے کا موقع ملا، اب ایسا ممکن نہیں

ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ طالبان مالاکنڈ ڈویژن سے کبھی گئے ہی نہیں تھے، انکی محفوظ پناہ گاہیں آج بھی موجود ہیں۔ سرحداور باڑ بھی عام لوگوں کیلئے رکاوٹ ہیں، دہشتگرد جب چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد انہیں لایا بھی گیا ہے لیکن اہم چیز انہیں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ریاست کی پشت پناہی نہ ہو تو طالبان کو مقامی عوام چند لمحوں میں ختم بھی کر سکتے ہیں اور ان کی دہشت کا بھی خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ اب لوگ تنگ آ چکے ہیں، اب اس قتل عام کو دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

موجودہ حکومت بھی ہابرڈ رجیم ہے، اگلا سیٹ اپ بھی ہابرڈ ہی ہو گا: عائشہ صدیقہ

یہ ایک کھچڑی ہے، بلکہ وہ تو فوری پک جاتی ہے، یہ فوری نہ پک پانے والی کھچڑی ہے۔ تین چیزیں اکٹھی چل رہی ہیں، معاشی کرپشن، سیاسی کرپشن اور دانشورانہ کرپشن حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہاں اب خواب لینے والے اور بات کرنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ دو انتہائیں ہیں، یا تو مذہب کی طرف دھکیلا جاتا ہے، ہر مسئلے کو مذہب کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، یا پھر مذہب سے پرے کی بات ہوتی ہے۔ ہر چیز ایک جگہ پر جا کر پھنس چکی ہے۔ سرمایہ داری کا گوڑھا رابطہ نیشنل ازم سے ہے۔ نیشنل ازم سرمایہ داری کا ایک حصہ ہے، جو عقل کو بالکل ماؤف کر دیتا ہے۔ انسانیت، اصول پرستی اور خوابوں کی بات کہیں پیچھے دور چلی جاتی ہے۔ جب خواب لینے والے ہی نہیں رہ گئے، تو پھر ہم آگے کیا بڑھیں گے۔

’انقلاب ایران کے بعد اتنی بڑی بغاوت پھوٹی ہے‘

”اگر ہم ایران میں اس بنیاد پرست تھیوکریٹک حکومت کا تختہ الٹ دیں تو پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ یہ پورے خطے کو بدل دے گا اور بہتری کی امید پیدا ہو گی، لہٰذا ایرانیوں کی جدوجہد آزادی کو ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے تحت دیکھیں۔ ہمارے خطے کی خواتین نے ترکی، لبنان، سوڈان، عراق وغیرہ میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے ملکوں کی حقوق نسواں تحریک کیلئے ضروری ہے کہ ایران کی خواتین اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ لہٰذا سب تحریک میں شامل ہوں“۔

پاکستان: ’انقلابی امدادی و احتجاجی کمپئین‘ کے منتظم اویس قرنی کا انٹرویو

ہم دنیا کے محنت کش طبقے سے کہتے ہیں، جیسا کہ مارکس نے خود کہا، دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ۔ ہمارا نعرہ ہمارے دکھ برابر ہیں۔ ایک کی چوٹ سب کی چوٹ ہے۔ لہٰذا ہم دنیا کے دیگر حصوں کے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم اس جدوجہد میں خود کو تنہا نہیں سمجھتے۔ ہماری جدوجہد آپ کی جدوجہد ہے اور ہمارا درد آپ کا درد ہے۔ آپ کا ساتھ بہت اہمیت کا حامل ہے اور ہماری جدوجہد، ذہنوں اور دلوں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے اور اس بار ہم یکجہتی کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کی مختلف قومیتوں کے گرد یکجہتی پیدا کر سکتے ہیں، ایک تنظیم بنا سکتے ہیں، ایک انٹرنیشنل تشکیل دے سکتے ہیں جو اس غیر منصفانہ نظام کا مقابلہ کر سکے جو ایمازون سے ارجنٹائن، چلی سے لے کر لبنان، یورپ سے مشرق وسطیٰ اور یوکرین، امریکہ سے آسٹریلیا اور افریقہ سے لے کر ایشیا تک دنیا میں ہر جگہ تباہی پھیلا رہا ہے۔ اور ہم ایک بین الاقوامی تنظیم بنا سکتے ہیں جو ان تمام مصائب کا خاتمہ کر سکے۔

دی سوشلزم منسٹر: کیا سوشلسٹوں کو سرمایہ دار حکومتوں میں شامل ہونا چاہئے؟

پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر تو یہ بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ سوشلسٹوں کو سرمایہ دار حکومت میں شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ ہاں بھٹو دور میں یہ بحث ضرور موجود تھی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں، جہاں بایاں بازو نسبتاً بڑا وجود رکھتا ہے، یہ بحث گاہے بگاہے جنم ضرور لیتی ہے۔

پاکستانی ٹچ والی ’سکوئڈ گیمز‘: سرمایہ داری کی درندگی کا ایک رخ

ساتویں ایٹمی قوت، جس کی ایک چوتھائی آبادی اس وقت سیلاب میں ڈوبی، بیرونی امداد کی منتظر ہے…اس کا عالمی امیج کیا ہے؟ ’سکوئڈ گیمز‘ اس کی صرف ایک جھلک ہے۔ پاکستان کی ’سکوئڈ گیمز‘ میں نمائندگی (Representation) اس ریاست اور حکمران طبقے کے منہ پر طمانچہ ہے جو قوم کو ایٹمی قوت، فتح مکہ، غزوہ ہند اور اس طرح کی دیگر لوریاں سنا کر بغیر ویزے کے کوریا اور یورپ بھیج دیتے ہیں یا سیلاب میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں مگر کورین اشرافیہ کی طرح خود مزے میں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ فکر بھی کھاتی رہتی ہے کہ پاکستان کا عالمی امیج خراب نہ ہو۔ اس لئے انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کے پیچھے ویگو ڈالے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کیا کسی ’ہم‘، ’جیو‘ یا ’اے آر وائی‘ میں ہمت ہے کہ پاکستانی اشرافیہ کی ’سکوئڈ گیمز‘ کو اسکرین پر پیش کریں؟

’عالمی قوائد کے مطابق سیلاب زدہ پاکستان بیرونی قرضے واپس دینے سے انکار کر سکتا ہے‘

عبدالخالق کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے قواعد موجود ہیں جن کی بنیاد پر آفت زدہ ملک اپنے قرضے دینے سے انکار کر سکتے ہیں، یا کم از کم موخر کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے حکمران ایسی جرات کرنے کی بجائے مزید قرض لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ قرض دینا عالمی مالیاتی اداروں کا کاروبار ہے، وہ اس کاروبار کو نقصان نہیں ہونے دے سکتے، اس لئے پاکستان جیسے ملکوں کو وہ دیوالیہ نہیں ہونے دیتے، بلکہ پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر خودمختاری پر کمپرومائز کرواتے ہیں اور قرضوں کا یہ کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ عبدالخالق ادارہ برائے سماجی و معاشی انصاف (ISEJ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور دنیا بھر میں ناجائز قرضوں کے خاتمے پر کام کرنے والے نیٹ ورک ’CADTM‘ کے رکن ہیں۔ پاکستان میں ناجائز اور غیر قانونی قرضوں کے خاتمے کی تحریک میں سرگرم ہیں۔

دادو میں شہریوں نے خود بند باندھ کر تحصیل جوہی کو بچا لیا

صدام مصطفی کہتے ہیں کہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیلوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت جہاں سیلابی پانی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، وہیں حکومتی بے حسی اور انتظامی اداروں کی نااہلی کے خلاف سراپا احتجاج بھی ہیں۔ سیلابی پانی داخل ہونے کے خطرات سے دوچارشہروں اور دیہاتوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ متاثرین کو فاقوں اور بیماریوں سے مرنے سے بچانے کیلئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ صدام مصطفی دادو شہر کے رہائشی ایک سوشلسٹ رہنما ہیں، وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (پی ٹی یو ڈی سی) کے ساتھ منسلک ہیں۔ گزشتہ روز سیلابی صورتحال سے متعلق ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا گیا، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

خیبر پختونخواہ:’10 سال پہلے روز گن شپ ہیلی کاپٹر مارنے آتے تھے، اب سیلاب سے بچانے کوئی نہیں آیا‘

رکا ہوا پانی نکالنے اور تعمیر نو و بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوری طور پر تو رکا ہوا پانی نکالنے کیلئے واٹر پمپنگ کرنے کے ساتھ ساتھ بند نالوں اور ندیوں کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر نو اور بحالی کیلئے فوری طور پر مواصلات کے شعبے کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کی نظر ہونے والے مکانات کی تعمیر کرنے کے علاوہ دیگر ریلیف کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہئیں۔ اندرون و بیرون ملک سے جمع ہونے والی امدادی رقوم کو بنا خرد برد کے سیلاب زدگان کی بحالی و آبادکاری پر صرف کیا جانا چاہیے۔

’سرائیکی خطہ مکمل تباہ ہو گیا ہے، حکومت اور بڑی سیاسی جماعتیں غائب ہیں‘

جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ دو مرکزی اضلاع ڈی جی خان اور راجن پور کی تمام تحصیلیں سیلاب کی زد میں ہیں، مجموعی طو رپر کوئی ایسی جگہ نہیں جو محفوظ ہو، ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ شہروں تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کو کسی حد تک پانی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے، اکثر شہروں میں بھی پانی داخل ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے نقصانات نہیں ہوئے۔ باقی تمام دیہات اور شہروں کے نواحی قصبے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات پانی میں ڈوب کر گر چکے ہیں۔ لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور لوگوں کی حالت اس وقت بہت تکلیف دہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا زمینی صورتحال سے اس لئے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ابھی تک حکومتی ادارہ کوئی بھی سیلاب متاثر ہ علاقوں تک مکمل رسائی ہی حاصل نہیں کر سکا ہے، ہواؤں میں ہی اعداد و شمار بنائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔