دنیا

[molongui_author_box]

”روس یوکرائن جنگ“ کے امکانات

ممالک کی ڈپلومیٹک کاوشوں اور نیک تمناوؤں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت دنیا میں ایک بڑی جنگ اور جنگی جنون مخالف تحریک کی اشد ضرورت ہے اور اس وقت تک ضرورت ہے جب تک دنیا سے جنگی جنون مکمل طور پر رخصت نہ ہو جائے۔ بڑے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر اور ممالک انا، ماضی پرستی اور چھوٹے چھوٹے تجارتی مسائل کو حل کرنے کے لیے توپیں اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔

60 سال بعد ایٹمی جنگ کا حقیقی خطرہ عالمی سوشلسٹ یکجہتی سے روکا جا سکتا ہے: فورتھ انٹرنیشنل

موجودہ حالات یورپ میں امن کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب حالات کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ پھر کسی کے قابو میں نہیں رہتے۔ کوئی معمولی سا حادثہ ان حالات کے بے قابو ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف فوری طور پر ایک بین الاقوامی تحریک متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایشیا پیسیفک کے علاقے میں جاری کشیدگی بھی یوکرین میں بڑھتی کشیدگی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سامراجی قبضے کی بھوک اور اس پر بڑی طاقتوں کے معاشی و سماجی مسائل اور انکے اندرونی اداروں کا بحران دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر، ہم تمام سیاسی، سماجی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی سطح پر متحرک ہوں اور بائیں بازو کے بین الاقوامی اور یکجہتی کے جذبے کو دوبارہ سے پروان چڑھائیں۔

سمندر پار پاکستانی اور ملکی سیاست

ووٹ کے حق کا مسئلہ دوہری شہریت یا ان پاکستانیوں کا مسئلہ ہے جو پاکستان کی شہریت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ ایک اہم مگر نہایت بحث طلب مسئلہ ہے۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

کابل میں ’فتح مکہ‘ منانے والا پاکستانی میڈیا اب افغانستان پر خاموش کیوں؟

اگر مان بھی لیا جائے کہ کوئی نیا نظام اسلامی امارات افغانستان میں نافذ ہو رہا ہے تو ایک نظر افغانستان کے حالات پر ہی ڈال لیتے ہیں جہاں غربت کا ننگا ناچ جاری ہے، آزادی اظہار رائے کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے، صحافیوں کو مارا جا رہا ہے ہراساں کیا جا رہا ہے، عورتوں کے حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، بھوک نے تہذیب کے آداب چھین لیے ہیں، لوگ اپنے بچے بیچ رہے ہیں، گھر کا سامان تو کئی خاندانوں کا پہلے ہی بک چکا ہے۔

جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف

جب تک نجی ملکیت ہے انسان کی انسان سے جنگ ختم نہیں ہو سکتی اور جب تک نجی ملکیت کا دفاع کرنے والی قومی ریاست کا خاتمہ نہیں ہوتا،مختلف ریاستوں کے حکمران طبقات کے درمیان تضادات بھی ناگزیر طور پر جنم لیں گے جو کبھی بھی جنگ کی صورت میں اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔

بھارتی کسانوں کی جیت: مودی سرکار نے گھٹنے ٹیک دئے!

کہا جا رہا ہے کہ مودی حکومت کے اس حیران کن اور اچانک کئے گئے اقدام کے پیچھے یو پی اور پنجاب میں آنے والے انتخابات کی حکمت عملی بھی ہے۔ یو پی میں جہاں کسانوں کی بڑی تعداد قرضوں اور مالی مشکلات میں گرفتار ہے، سرکار کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ رہا ہے جس کے تنائج آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں جہاں بر سر اقتدار کانگرس پارٹی اندرونی سیاست اور رہنماؤں کے درمیان ذاتی مفادات کی چپقلشوں کا شکار ہے، بی جے پی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے پرتول رہی ہے۔

طالبان قبضے کے 3 ماہ: لامحدود بربریت

افغانستان کے لوگ طالبان کے خلاف مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ چاہے وہ کابل، ہرات یا مزار کی سڑکیں ہوں یا کرکٹ کے بین الاقوامی پلیٹ فارم، لوگ ہر سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں۔ افغانستان کی خواتین سب سے زیادہ بہادر ہیں کیونکہ انہوں نے وقتاً فوقتاً احتجاجی مظاہرے کیے ہیں، حالانکہ طالبان نے مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔

بھوک سے افغان شہری مریں گے، طالبان کا دسترخوان سجا رہے گا

افغانستان میں حکمران بدلنے کے بعد کئی بحثیں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کے اقتدار کو جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں جو انسانی بحران جنم لے رہا ہے، اس پر بحث ہو رہی ہے۔ عالمی برادری میں طالبان کے اقتدار پر جاری بحث کے دوران بد قسمتی سے عام افغان لوگوں کے لئے زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔

افغان کرکٹرز کا طالبان کے سامنے انکار

افغان الیون بالخصوص کپتان محمد نبی اپنے آنسو نہ روک سکے کیونکہ میچ سے قبل قومی ترانہ گایا گیا، انکی ایک تصویر وائرل ہو گئی۔ سٹیڈیم میں موجود افغان تماشائی سب افغان پرچم لہرا رہے تھے۔ کچھ نے سہ رنگے پرچم کی ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں، کچھ نے اپنے چہرے تین رنگوں میں پینٹ کرتے ہوئے افغان پرچم کی تصویر کشی کر رکھی تھی۔ اب یہ محض کرکٹ میچ نہیں تھا بلکہ یہ کھیل بطور مزاحمت تھا۔