تاریخ

[molongui_author_box]

پنجاب میں مزاحمت کی میراث

عبداللہ بھٹی عرف دُلہ بھٹی، ان کے والد فرید اور دادا ساندل عرف بجلی نے پنجاب میں مغلیہ حکومت کو چیلنج کیا اور اس مزاحمت کومغلیہ سلطنت کے خلاف تین نسلوں تک جاری رکھا۔ مغلیہ سلطنت کی انتہائی رجعت پسندانہ ٹیکس پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے بھٹی محنت کش طبقے کے انقلابی رہنماؤں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ وہ مقامی برادری میں اپنی بہادری اور سماجی انصاف کے فروغ کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ بغاوت کے خوف نے اکبر کو دو بار اپنا دارالحکومت دہلی/آگرہ سے لاہور منتقل کرنے پر مجبور کیا۔ ان سب (بھٹیوں) نے اکبر کے زیر اقتدار طاقتور مغلیہ سلطنت کے خلاف اس جدوجہد میں اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ دُلہ اپنی بیوی کی گرفتاری کی وجہ سے مغل فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا تھا۔

افغانستان: ہتھوڑے اور سندان کے بیچ

افغانستان اندر صورتحال لاینفک طور پر غیر مستحکم ہے۔ خیالی پلاؤ پکانے والے ہی اس سے انکار کر سکتے ہیں۔ یہ گمان کہ اتحاد اپنی موجودہ شکل میں چند سال جاری رہے گا تو اسے مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’آزاد‘ کابل میں قبضہ بازی کی خاطر پہلے ہی کشمکش شروع ہو چکی ہے گو کھلم کھلا جھڑپوں سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ مغرب دیکھ رہا ہے۔ سرمائے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

چراغ بجھتے ہی رہتے ہیں پر…

انکی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی بہادری تھی۔ ایک بار لاہور مال روڈ پر جلوس پر پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ وہ خواتین کے سامنے ڈھال بن گئے۔ اسی طرح ایک بار بیڈن روڈ پر جس عمارت میں جدوجہد کا دفتر تھا اس پر قبضہ گروپ والے بندوقوں کی مدد سے قبضہ کرنے آ گئے۔ اس عمارت کے مالک حاجی صاحب کا کوئی لین دین کا جھگڑا تھا۔ اس کا خواہ مخواہ خمیازہ ہمیں بھی بھگتنا پڑا۔ قبضے کے دوران کلاشنکوف بردار بدمعاشوں سے شعیب بھٹی الجھ پڑے۔ وہ عمارت خالی کرنے پر تیار نہ تھے۔

طارق علی: تقسیم فیض، منٹو اور امرتا پریتم کی نظر میں

”آج میرا دل افسردہ ہے۔ ایک عجیب سا اضمحلال اس پر چھایا ہوا ہے۔ چارساڑھے چار سال پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن بمبئی کو خیر باد کہا تھا تو میرا دل اس طرح مغموم تھا۔ مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے پُر مشقت دن گزارے تھے۔ ملک کے بٹوارے سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا مگر اس طرح کہ مایوسی کو میں نے اپنے پاس تک نہیں آنے دیا۔“

ملک ہار دینے والا جرنیل (آخری قسط)

فوج کو جب اندازہ ہوا کہ اس نے اپنا کتنا بڑا نقصان کر لیا ہے توزخم خوردہ فوجی قیادت نے ذوالفقار علی بھٹو نامی نجیب سیاستدان سے رابطہ کیا تاکہ بچے کھچے ملک کے معاملات کو چلایا جا سکے اور وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔اس موقع پر فوج کی ”نسبی آزدی“ کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ یہ کہ وہ کبھی پھر اقتدار کا رخ کریں گے، نا ممکن دکھائی دیتاتھا۔

ملک ہار دینے والا جرنیل (چوتھی قسط)

یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں جن کے سامنے تقسیم ہند کے دوران یا بنگال میں پڑنے والے 1943ء کے عظیم قحط کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی کم پڑ جاتی ہے۔

ملک ہار دینے والا جرنیل (تیسری قسط)

مشرقی پاکستان کے کمانڈنٹ جنرل ”ٹائیگر“ نیازی نے بڑ لگائی تھی کہ وہ ہفتوں میں سرکشی کا قلع قمع کر دیں گے مگر ان کی شیخی کسی کام نہ آئی۔ جنرل گل حسن کے لئے مشکل ہو رہا تھ کہ وہ جنرل نیازی کے لئے اپنے دل میں موجود ہتک چھپائیں۔ گل حسن کے خیال میں جنر ل نیازی زیادہ سے زیادہ ”کمپنی کمانڈر بننے کے قابل“ تھے۔ جنرل گل حسن خود بھی کوئی توپ قسم کے فوجی مدبر نہ تھے۔