تاریخ

[molongui_author_box]

منٹو اور امریکہ

منٹو کا شمار ان میں ہوتاہے جنہوں نے بہت پہلے، 1950 کی دہائی کے شروع میں ہی، امریکہ کے بہت قریب ہونے کے نقصانات کی نشاندہی کر دی تھی۔ جی ہاں، یہ وہی سعادت حسن منٹو ہیں جن کانام اُردو دُنیامیں سب سے زیادہ مقبول ادب تخلیق کرنے والوں میں شمار ہوتاہے۔ محض 42سال 8 ماہ اور4 دن کی زندگی میں اُنہوں نے ادب کا انتہائی دلچسپ اور سبق آموز خزانہ تخلیق کیا۔ یوں تو اُنہیں عظیم افسانہ نگار کے طور پر یاد کیاجاتاہے مگر اس مضمون میں اُن کی اُن تحریروں پر بات کی جائے گی جو اُنہوں نے”چچاسام کے نام خط“کی شکل میں لکھی تھیں۔ دسمبر 1951 سے اپریل 1954 کے عرصے میں اُنہوں نے”چچاسام“کو کُل 9 خطوط لکھے۔ یہ خطوط، جن میں اُنہوں نے“چچاسام”کو امریکہ کے لئے ایک عُرفی نام کے طور پر استعمال کیا، نہ صرف طنزومزاح کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں بلکہ”بھتیجا“پاکستان اور”چچا“امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایک اہم سیاسی دستاویز بھی ہیں۔

منٹو ترقی پسند ہے…یہ کیا بے ہودگی ہے؟

”سعادت حسن منٹوترقی پسند انسان ہے…یہ کیا بے ہودگی ہے، سعادت حسن منٹو انسان ہے اور ہر انسان کو ترقی پسند ہونا چاہئے، ترقی پسند کہہ کر لوگ میری صفت بیان نہیں کرتے بلکہ اپنی برائی کا ثبوت دیتے ہیں“۔

برکت اللہ: لینن سے متاثر مولانا جو عمر بھر انگریز سامراج سے لڑتے رہے

وہ 8سال تک لندن میں ہی رہے اور جلد ہی وہ ایک سکالر اور سیاسی کارکن کے طورپر مشہور ہو گئے۔ انہیں یہ شہرت زیادہ تر برطانیہ کی ترکی کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ اورئینٹل یونیورسٹی آف لیورپول میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے اور 6سال تک بطور استاد وہاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے ہندوستانی کمیونٹیزاور امریکی عوام سے رابطے جاری رکھے اور برطانوی پالیسیوں کے حوالے سے اپنا موقف دیتے رہے۔

احمد سلیم: ’ایک لائبریری چھوڑ گئے، ایک ساتھ لے گئے‘

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پنجابی اور اردو کے معروف مصنف، محقق، شاعر، مترجم اور انسانی حقوق کے کارکن احمد سلیم پا گئے ہیں۔ ان کی عمر78برس تھی اور وہ کچھ عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے، اسلام آباد میں انہوں نے پیر کے روز آخری سانس لی۔ احمد سلیم کی […]

بنجر دانشوارانہ منظر نامے میں ڈاکٹر قیصر عباس جوہر نایاب تھے

میری طرف سے ان کو بھیجی گئی آخری ای میل انتہائی مایوس کن تھی۔ وہ ایسی حالت میں لکھی گئی تھی کہ جہاں بہت سی آن لائن نفرت انگیز مہمات چل رہی تھیں۔ سرائیکی لوگوں اور سرائیکی زبان کے بارے میں بدسلوکی اور گالیوں پر مبنی مہم تھی۔ سرائیکی زبان کو دقیانوسی تصور، غیر انسانی قرار دیا جا رہا تھا۔ سرائیکیوں کو ڈاکو، چور، باہر کے لٹیرے، مجرم، جاہل اور ثقافتی طور پر غیر مہذب اور ایسے لوگ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا، جو معاشرے کیلئے خطرہ ہیں۔میں سرائیکیوں کے خلاف بہت زیادہ تعصب، نفرت اور ثقافتی نسل پرستی کی وجہ سے میں مایوس تھا، لیکن ڈاکٹر قیصر عباس نے مجھے امید دلائی۔

برصغیر میں سوشلزم کی بنیاد رکھنے والے مسلمان: امہ متحد کرنے نکلے، سوشلسٹ بن کر لوٹے

امت مسلمہ کے اتحاد اور فتح کی جستجو میں افغانستان سے عرب، ترکی اور یورپ تک کا سفر کرنے والے مسلم علماء اور نوجوان بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر برصغیر کے پہلے مسلم سوشلسٹ بن کر لوٹے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے سمیت ابتدائی سرگرمیوں میں ان مسلم نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔
سنٹرل ایشیا اور انڈونیشیا کے برعکس برصغیر کے پہلے مسلمان سوشلسٹوں کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا۔ یہ ایسے لوگ سمجھے جاتے تھے جو ہمیشہ اسلام کا ممکنہ خطرات سے دفاع کرنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ برصغیر پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کیلئے بھی خلافت عثمانیہ، افغانستان سمیت دیگر مسلم علاقوں کی جانب سے مدد کے متلاشی بھی رہے۔ سنٹرل ایشیا میں البتہ صوفی نقشبندی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور انڈونیشیا میں صوفی شیخ سلسلے سے تعلق رکھنے والے مسلمان سوشلزم کیلئے جدوجہد کا زیادہ حصہ بنے۔

احمقوں کی سامراج مخالفت

قبل از اسلام بت پرست عہد کے نئے سال کے موقع پر ہونے والا جشن نو روز پچھلے دو سال سے منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر نوجوان مرد اور بے نقاب نوجوان خواتین مذہبی پولیس کو اس کے کالے کارناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ محض آغاز ہے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ تجربے امریکی بموں کی نسبت کہیں بہتر استاد ہیں۔ وجہ مختصراً یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں اور نئی نسل کسی جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت ملاؤں اور ان کے مذہب سے غیر معمولی نفرت کرتی ہے۔

حاشیہ ہائے بابِ شکست

1948ء کی نکبۃ کے ہاتھوں فلسطینی قیادت سے محروم ہوگئے اور بکھر کر رہ گئے۔ ان کی زندگیاں صحیح معنوں میں عرب ریاستوں کی کڑی نگرانی میں آگئیں۔ فلسطین محاذ آزادی (پی ایل او) کے قیام پر اتفاق رائے کے لئے عرب لیگ نے پندرہ سال لگا دیئے لیکن پی ایل او کا مطلب یہ تھا کہ فلسطینی دستے بنائے جائیں جو شام، عراق، اردن اور مصر کی فوجوں اندر مد غم ہو جائیں۔ عرب دارالحکومتوں اندر 1956ء کے واقعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی پولرائزیشن سے متاثر ہوکر ریڈیکل نظریات رکھنے والی نئی فلسطینی نسل اندر ایک نیا شعور جنم لے رہا تھا۔ یہ ایسے نوجوان مرد و خواتین تھے جو 1948 میں ابھی اپنے پیروں چلنا سیکھ رہے تھے او ر اس دور کی نسلی صفائی کا براہ راست تجربہ انہیں بھول چکا تھا۔ یہ وہ نسل تھی جو بربادیوں کی داستان سنتے ہوئے پلی بڑھی تھی اور انکی یاداشت مشترکہ تھی جو شکست کے براہ راست تجربے کی نسبت زیادہ کار گر ہوتی ہے۔

فیض اور فلسطین

”محترم شاعر اور برادر عزیز فیض احمد فیض! آپ کی شکل میں فلسطینی لوگوں کو ایک ایسا شاعر نصیب ہوا ہے جو ترقی پسند ہے، عالمی شاعر ہے، عالمی امن کے لئے ان تھک جدوجہد کرنے والا کارکن ہے اور آزادی و خوشحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے مظلوم عوام کا ساتھی ہے۔ ہم عرب فلسطینیوں کو آپ کی دوستی پر فخر ہے۔ آپ کے گہرے شعور، اہل فلسطین اور ان کی جائز جدوجہد میں آپ کی معاونت کرنے پر ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اہل فلسطین خاص کر فلسطینی بچوں اور انقلابیوں کے لئے آپ نے جو دلسوز اور بہترین نظمیں کہیں وہ ہمیشہ برادرانہ اور سچی محبت کی مثال بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گی“۔