آج بالشویک انقلاب کے 103 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟

آج بالشویک انقلاب کے 103 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟
صرف بالشوازم کے نظریات، طریقہ کار اور حکمتِ عملی پر مبنی انقلاب ہی اس اذیت اور محرومی کے خاتمے میں فتح یاب ہو سکتا ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ آنے والے تاریخی عہد میں حکمران طبقات لرز اٹھیں گے کیونکہ عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان میں اترنے کو ہیں۔
پس پردہ کوئی بغاوت ہوئی ہو گی کہ 1906ء میں یہ انعام امریکی صدر تھیوڈر روز ویلٹ کو دے دیا گیا۔
صدر اسکندر مرزا نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو توڑ دیا، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی، آئین منسوخ کرکے مارشل لا لگا دیا اور جنرل ایوب خاں کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
فیض احمد فیض پر یہ الزام کہ انہوں نے اپنی شاعری کو محنت کشوں کی آواز بنا کر اسے کمزور کردیا، نیا نہیں ہے۔ دراصل یہ الزام طویل عرصے سے رائج اس نظرئیے کا عکاس ہے جسے بعض حلقوں میں بہت فوقیت دی جاتی ہے کہ آرٹ (اور اسے ہونا بھی چاہیے) ’مہذب‘ لوگوں کی میراث ہے (دولت مندوں کی خوش طبعی کی لئے)۔
پانچ ماہ جاری رہنے والی جدوجہد کے بعد مزدوروں اور طالب علموں نے واشنگٹن کی حمایت یافتہ فوجی آمریت کا تختہ الٹ دیا ہے۔
”ہم نے سارا ریکارڈ دیکھا ہے۔ بھٹو پر فوجیوں نے ذمہ داری ڈالی ہے“۔
صادقین کے متعلق مشہو ہے کہ زندگی بھر انہوں نے افسروں، ارباب اختیار اور طاقتور سیاست دانوں کو گھاس نہیں ڈالی۔
یہ لمبی جدوجہد اس لئے بھی ممکن ہو سکی کہ ان میں زبردست انفرادی خوبیاں تھیں۔ بے شمار حوصلہ، بہادری، ایثار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہتے۔ ان کی وفات پر ان کے قریبی دوست ڈاکٹر رسولی نے معلم صبوری کو ”انسان مبارز و با افتخار کشور“ (فائٹر اور ملک کا افتخار) قرار دیا۔ شائد اس سے بہتر اور مختصر تعارف ممکن نہیں۔
”گھر پر قبضہ کر بیٹھے گا یارو چوکیدار نہ رکھنا“