مزید پڑھیں...

اسلام سے دوری نہیں، بیرونی قرضوں کی وجہ سے مصر برطانیہ کی کالونی بنا

یہ تاریخ دانی سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ افریقہ اور ایشیا پر استعماری قبضوں کی وجہ یہ تھی کہ یورپ سر مایہ دارانہ عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ سر مایہ داری مسلم علاقوں میں رائج جاگیرداری نما معاشی و سیاسی نظام سے کہیں آگے کی چیز تھی۔نہ صرف سرمایہ دارانہ جدییدیت (تکنیکی، فوجی، جغرافیائی، ابلاغی جدیدیت) نے پس ماندہ جاگیردارانہ سماج کو شکست دی بلکہ نئے معاشی نظام نے بھی یورپ کی حکمرانی قائم کر دی۔ اس معاشی برتری کا ایک بڑا اظہار یہ تھا کہ مسلمان ممالک،بشمول سلطنت عثمانیہ،یورپ کی معاشی غلامی میں چلے گئے۔ استنبول کا بال بال یورپی قرضے میں جکڑا ہوا تھا۔

طالبان پاکستان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو اسلام آباد کابل کے ساتھ کرتا تھا

یہ کاروائی پاکستانی افواج پر ایک دہشت گرد حملے کے بعد کی گئی جس میں لیفٹنٹ کرنل اور ایک کپتان سمیت سات اہل کار جان سے گئے۔ معروف صحافی عمر چیمہ نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بتایا کہ ایک اہل کار کا تعلق جہلم کے علاقے ٹمن سے تھا۔ جس دن فوجی افسر کا جنازہ ہوا، اسی روز اسی گاوں کے ایک اور شخص کا جنازہ تھا جس کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ اس شخص نے ایک پولیس اہل کار کو قتل کیا تھا،جس کے بعد وہ جیل میں سزا کاٹ رہا تھااور جیل میں ہی ہلاک ہو گیا۔ٹی ٹی پی تب تک محفوظ رہے گی جب تک سپاہ صحابہ کو ریاستی سر پرستی میسر ہے۔

صہیونیوں کو سعودی منافقت کا علم ہے: جلبیر اشقر

یکجہتی کی تحریک کے اندر ایک ریاست یا دو ریاستوں پر بحث اکثر میرے خیال میں نامناسب ہوتی ہے، کیونکہ یہ فیصلہ پیرس، لندن یا نیویارک میں نہیں ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کے لیے کیا ضروری ہے۔ یکجہتی تحریک کو فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے لیے اپنے تمام اجزاء میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس وقت 1967 میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلاء، مغربی کنارے میں بستیوں کو ختم کرنے، علیحدگی کی دیوار کی تباہی، پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کیلئے حقیقی معنوں میں مساوات کے مطالبات پر فلسطینیوں کا اتفاق رائے ہے۔ یہ تمام جمہوری مطالبات ہیں، جو ہر کسی کے لیے قابل فہم ہیں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی مہم کا مرکز ہونے چاہئیں۔

انقلابی رجحانات: محنت کشوں اور عوام کی پیش قدمی اور بائیں بازو کے لیے گنجائش

جس طرح انتہائی دائیں بازو کے ابھار سے ظاہر ہونے والے خطرے کو معمولی سمجھنا ایک غلطی ہو گی اسی طرح محنت کشوں اور وسیع تر عوام کے بڑھتے ہوئے ابھار سے انکار کرنا بھی بہت بڑی بھول ہو گی۔ یہ تحرک کئی برسوں سے جاری ہے اور 2023ء میں ایک جست کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی طاقتور مزدور تحریک اس میں شامل ہوئی ہے۔ ہمیں اس میں فلسطینی مزاحمت کو بھی شامل کرنا چاہیے جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں سامراج کے منصوبوں کو غیریقینی سے دوچار کر دیا ہے۔

غزہ: 1 فیصد آبادی ہلاک: فرانس میں یہ 680,000 اموات کے مساوی ہو گا

قابض افواج کی فوجی رپورٹس کی روشنی میں چیزیں نسبتاً واضح ہیں۔ شمال کے لیے انتہائی شدید بمباری کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور جنوبی حصے میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ شمالی نصف اور مرکز میں، قابض افواج اگلے مرحلے کی طرف بڑھ گئی ہیں، جو کہ ایک نام نہاد کم شدت والی جنگ ہے۔ درحقیقت وہ سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور حماس اور دیگر تنظیموں کے جنگجوؤں کو تلاش کرنے کے لیے ان علاقوں پر مبنی ایک مکمل گرڈ(grid) ترتیب دے رہے ہیں۔ فلسطینی جنگجو ہر وقت گھات میں رہتے ہیں اور جب تک سرنگیں موجود ہیں یہ کسی بھی وقت ابھر سکتے ہیں۔

امریکہ آئی ایم ایف کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ بلاکنگ اقلیت کے طور پر

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکہ میں بریٹن ووڈ کے مقام پر ورلڈبنک اور آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی گئی تو مقصد جنگ سے تباہ حال یورپی ممالک کی بحالی تھی۔ ان اداروں کو، جو اب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ہیں، بنانے کے لئے لگ بھگ چالیس سے زائد ریاستیں جمع ہوئیں کیونکہ ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک کو ابھی آزادی ہی نہ ملی تھی۔ اب آئی ایم ایف کے 190 رکن ممالک ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کا ابھار اور اس کیساتھ کیسے لڑا جائے

2022ء کے آخر اور 2023ء میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو نے خاص طور پر یورپ میں نئی انتخابی فتوحات حاصل کی ہیں۔ سویڈن میں ماڈریٹ پارٹی (دائیں بازو) اور سویڈن ڈیموکریٹس (انتہائی دائیں بازو) نے سوشل ڈیموکریسی کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر آ کر حکومتی اتحاد بنایا۔ فن لینڈ میں نیشنل کولیشن (دائیں بازو) نے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جس کی حمایت پارٹی آف فنز (انتہائی دائیں بازو) نے کی اور دو دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

حکمرانی کا بحران

گہرے بحران کے حالات میں بر سر اقتدار آنے والی بورژوا اور مفاہمت پسند سیاسی قیادتیں کٹوتیوں کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں لاگو کرتی ہیں جن سے محنت کش عوام کا معیار زندگی ناقابل برداشت سطح تک گر جاتا ہے۔ اس سے روایتی بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں، نئے رجحانات کی تشکیل اوران کے اقتدار کے تیر رفتار تجربے ہو رہے ہیں، حکومتیں گر رہی ہیں اور نئے سیاسی عوامل ابھر رہے ہیں۔

لینن کی میراث کے 100 سال

21 جنوری 1924ء کو ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کارل مارکس کی طرح لینن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر بہتان تراشی کے معاملے میں حکمران طبقات نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نہ صرف قدامت پرست بلکہ لبرل بھی اسے ایک خونی آمر اور اقتدار کے بھوکے غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ بائیں بازو کے بیشتر اصلاح پسند‘ حکمران طبقات کے یہ الزامات دہرانے کے ساتھ ساتھ لینن کو ایک ایسے بے صبرے مہم جو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اکتوبر 1917ء میں ریاستی اقتدار تک اپنی پارٹی کی رہنمائی کر کے انقلابِ روس کے نامیاتی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ ایسے میں بالشویک انقلاب کو بھی مزدوروں اور کسان سپاہیوں کی ایک عوامی (لیکن منظم) سرکشی کی بجائے ایک ’کُو‘ (اقتدار پر قبضے کی گروہی سازش) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی اکتوبر کی سرکشی میں بڑے پیمانے کی عوامی حمایت اور عمل دخل کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے تو اسے ایک ’’قبل از وقت‘‘ (پری میچور) اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لینن کی پالیسیوں نے ہی آخر کار سٹالنزم کا راستہ ہموار کیا۔