پاکستان

معیشت کا زوالِ مسلسل

عمران کامیانہ

پاکستان کی ازل سے بحران زدہ معیشت، جو نئے مشیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کی تقرریوں کے بعد عملاً آئی ایم ایف کے کنٹرول میں آچکی ہے، کا زوال گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران تیز تر ہو گیا ہے۔ ہر اعشاریہ مسلسل گراوٹ کا پتا دے رہا ہے۔ قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ داخلی و بیرونی سرمایہ کاری میں تیز کمی کیساتھ روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ سماج میں بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اِس تحریر میں ہم سٹیٹ بینک کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں معیشت کی عمومی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے۔

قرضے

پاکستان کے مجموعی قرضوں اور دوسری واجب الادا رقوم کا حجم جی ڈی پی کے 91 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ رقم 35 ہزار ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ جس میں صرف جولائی سے مارچ تک کے عرصے میں پانچ ہزار ارب روپے (17.4 فیصد) سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں سے زیادہ تر اضافے کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ جس کے صرف نو مہینوں کے دوران سرکاری اداروں کے خسارے 414.2 ارب روپے اضافے کیساتھ تقریباً دو ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

اسی عرصے میں حکومت کے مجموعی قرضوں میں 3700 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ مارچ کے آخر میں حکومت کا مجموعی قرضہ 28.6 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جو جی ڈی پی کا 74.4 فیصد بنتا ہے۔اس میں سے 18.2 ہزار ارب روپے داخلی قرضہ ہے جس میں 1800 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ 9.6 ہزار ارب روپے بیرونی قرضہ ہے۔ 2 ہزار ارب روپے سے زائد کی دوسری واجب الادا رقوم، جو وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ہیں، اس کے علاوہ ہیں جن میں 43 فیصد یا 625 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ نو مہینوں کے دوران ملک کے مجموعی بیرونی قرضے 10.6 ارب ڈالر کے اضافے کیساتھ 105.8 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔

مذکورہ بالا قرضوں کی سروسنگ (سود اور اصل رقوم کی ادائیگی) کُل بجٹ کا 36 فیصد ہڑپ کر رہی ہے۔

قرضوں میں اضافے کی بنیادی وجہ شرح سود میں مسلسل اضافہ جبکہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ حکومت کے قرضوں میں 105.8 ارب روپے کا اضافہ کرتا ہے۔ اسی طرح شرح سود میں 1 فیصد کے اضافے سے حکومتی قرضوں پر 180 ارب روپے زائد سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ دسمبر 2017ء کے بعد سے روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی جبکہ شرح سود میں 6 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اِس مالی سال کے آغاز سے روپے کی قدر میں ہونے والی کمی 21 فیصد بنتی ہے۔

22 مئی کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر 154 روپے تک مل رہا تھا۔ آنے والے کچھ مہینوں میں ڈالر کے 170 روپے جبکہ اگلے تین سالوں میں 200 سے 250 روپے تک چلے جانے کے امکانات ہیں۔

روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پچھلے ایک سال کے دوران ملک کی فی کس آمدن 1650 ڈالر سے آٹھ فیصد کم ہو کے 1515 ڈالر ہو چکی ہے جبکہ معیشت کا ہجم 313 ارب ڈالر سے کم ہو کے 280 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔

شرح سود اور افراطِ زر

سوموار کو سٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 1.5 فیصد کا اضافہ کیا ہے جس سے حکومت کو موجودہ قرضوں پر تقریباً ڈھائی سو ارب روپے زائد سود ادا کرنا پڑے گا۔ شرح سود اب 12.25 فیصد ہو گئی ہے جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔

شرح سود میں اضافہ بالعموم افراطِ زر کو روکنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ لیکن معیشت کی موجودہ کیفیت میں یہ ایسے ہی ہے جیسے ہائی بلڈ پریشر کا علاج کرنے کے لئے انسان کا گلا دبا دیا جائے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے حکومت اور نجی شعبے پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے۔ جس سے پوری معیشت سکڑاؤ کا شکار ہو رہی ہے۔

سرکاری طور پہ افراطِ زر کی شرح اس وقت تقریباً 10 فیصد ہے جبکہ عام لوگوں پر مہنگائی کا حقیقی بوجھ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جس میں آنے والے مہینوں میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔

خود سٹیٹ بینک نے تنبیہ کی ہے کہ افراطِ زر بڑھے گا۔ سٹیٹ بینک کے تازہ سروے کے مطابق زیادہ تر عام لوگ بھی اگلے چھ ماہ میں افراطِ زر میں مزید اضافے کی توقع کر رہے ہیں۔

سٹیٹ بینک کے مطابق شرح سود میں گزشتہ اضافے کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ حکومت مرکزی بینک سے دھڑا دھڑ قرضے لے رہی ہے۔ جاری مالی سال کے دوران حکومت نے 4.8 ہزار ارب روپے کا قرضہ سٹیٹ بینک سے لیا ہے جو پچھلے سال کے اسی عرصے سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔

سٹیٹ بینک سے قرضے لینے کا مطلب نوٹوں کی چھپائی ہے۔ یعنی ایک طرف نوٹ چھاپے جا رہے ہیں جس سے افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے‘دوسری طرف افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود بڑھائی جا رہی ہے جس سے معاشی سرگرمیاں اور داخلی سرمایہ کاری سکڑ رہی ہے۔

سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق حکومت کمرشل (نجی) بینکوں سے قرضے نہیں لے رہی ہے کیونکہ وہ ”موجودہ ریٹ پر حکومت کو قرضے دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نتیجتاً خسارے کو پورا کرنے کے لئے نوٹ چھاپنے سے مہنگائی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔“

جولائی سے مئی کے دوران نجی شعبے کے قرضوں میں بھی 9.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے کیونکہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے نجی شعبے کو قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔

سٹیٹ بینک نے جی ڈی پی گروتھ (معیشت کی شرح نمو) میں کمی کا بھی عندیہ دیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ زراعت اور صنعت کی شرح نمو میں کمی کو قرار دیا ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری

غیرملکی براہِ راست سرمایہ کاری (FDI)، جسے اس نظام کے ماہرین تمام معاشی مسائل کا حل قرار دیتے ہیں، گزشتہ 10 مہینوں کے دوران 51.7 فیصد کمی کیساتھ صرف 1.376 ارب ڈالر رہی ہے۔ یہ ایک دیوہیکل کمی ہے۔

اپریل کے مہینے میں صرف 101 ملین ڈالر بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں آئے جو مارچ کے مہینے کی نسبت 42.6 فیصد جبکہ پچھلے سال اپریل کے مقابلے میں 55.2 فیصد کم ہیں۔

بیرونی سرمایہ کاری میں یہ تیز گراوٹ موجودہ حکومت اور ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کی غمازی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں عالمی سرمایہ داری خود ایک ’طویل سست روی‘ سے دوچار ہے۔

بجلی کی پیداوار کا نجی شعبہ (آئی پی پیز)، جو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے یہاں کے عوام کو لوٹ رہا ہے، جاری مالی سال کے دوران 281 ملین ڈالر ملک سے نکال کے باہر لے گیا ہے۔

درآمدات و برآمدات

آئی ایم ایف کے حکم پر روپے کی قدر میں مسلسل کمی کو برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کا نسخہ بتایا جا رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ 10 مہینوں کے دوران برآمدات میں اضافہ تو درکنار‘ 2 فیصد کی مزید کمی ہو چکی ہے۔ جبکہ درآمدات میں صرف 5 فیصد کی کمی آئی ہے۔ یعنی مسئلہ نہ صرف اپنی جگہ پہ بدستور موجود ہے بلکہ مزید گھمبیر ہو رہا ہے۔

مجموعی طور پہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں صرف 27 فیصد کی کمی ہوئی ہے جس کی بھاری قیمت شدید مہنگائی اور قرضوں میں بے تحاشہ اضافے کی صورت میں غریب عوام کو چکانی پڑی ہے۔ صرف پچھلے ایک ہفتے کے دوران روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی سے 11 سو ارب روپے کا اضافہ قرضوں میں ہو چکا ہے۔یعنی ایک بحران کو ٹالنے کے لئے اُس سے بڑے بحران کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔

داخلی خسارہ

ترقیاتی بجٹ میں 34 فیصد کمی کے باوجود وزارت خزانہ کے مطابق مالی سال کے پہلے9 ماہ کے عرصے میں مالی خسارہ 19 کھرب 22 ارب روپے (جی ڈی پی کے 5 فیصد) تک پہنچ چکا ہے جو ایک دہائی کے عرصے میں تین سہ ماہیوں کا بلند ترین خسارہ ہے جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران ریکارڈ کیا گیا خسارہ 14 کھرب 80 ارب روپے تھا۔ ابھی ایک سہ ماہی باقی ہے۔ مالی سال کے آخر پہ خسارہ جی ڈی پی کے 8 فیصد سے تجاوز کر جانے کا امکان ہے۔اس صورت میں یہ 2000ء کے بعد سے بدترین مالی خسارہ ہو گا۔

یہ تاریخی طور پہ کسی تیسری سہ ماہی کا بلند ترین خسارہ بھی ہے جو جی ڈی پی کا 2.3 فیصد بنتا ہے۔

آمدن اور اخراجات کے تمام مالیاتی اعشارئیے ابتری کا پتا دے رہے ہیں۔ ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 8.9 فیصد سے کم ہو کے 8.2 فیصد پہ آگئی ہے۔مجموعی آمدن جی ڈی پی کے 10.4 فیصد سے کم ہو کے 9.3 فیصد ہو گئی ہے جبکہ اخراجات 14.3 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ آمدن کا 70 فیصد صرف قرضوں اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران دفاعی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

موجودہ حکومت نے ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے جو ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی ہے اس کا حشر بھی ماضی کی سکیموں جیسا ہی ہو گا۔ چند ایک لوگ انفرادی طور پہ تو اپنے کچھ پیسے کو سفید کرنے کے لئے ایسی سکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی کالا دھن اِس بحران زدہ نظام کا ناگزیر جزو ہے جس کا وجود ہی سرکاری لکھت پڑھت، ٹیکسیشن اور قانونی جکڑ بندیوں سے ماورا رہنے سے مشروط ہے۔ بدعنوانی، جرائم، ٹیکس چوری اور غیر دستاویزی معاشی سرگرمیوں وغیرہ پر مبنی اس کالے دھن کے بلبوتے پر ہی سرکاری معیشت چلتی ہے۔

مشکل وقت ابھی آگے ہے!

مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میں معاشی بحران کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن عوام پر مزید مشکل وقت ابھی آنا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام 2022 ء کے آخر تک جاری رہے گا۔ جس میں بجلی، تیل و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے، ہر قسم کی سبسڈیوں کے خاتمے، تعلیم و صحت کے شعبوں سمیت تمام سرکاری اداروں کی نجکاری اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ آنے والے بجٹ میں 700 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

آئی ایم ایف سے نجات؟

آج کل کچھ اصلاح پسند حلقوں کی جانب سے آئی ایم ایف کو ایک ’بیرونی عنصر‘ کے طور پہ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ یعنی جیسے تیسے آئی ایم ایف سے ”اوائڈ“ کر لیا جائے تو نسبتاً کم تکلیف دہ طریقوں سے موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ یہ بنیادی طور پہ وہی پوزیشن ہے جو تحریک انصاف کی اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد تک تھی۔

اس کے برعکس یہ لبرل موقف بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کے اصل ذمہ داران یہاں کے حکمران طبقات اور اُن کے پالیسی ساز ہیں جنہوں نے بروقت اصلاحات نہ کر کے حالات کو اِس نہج تک پہنچایا ہے۔ یہ موقف آج کل ملک کے بڑے روزناموں میں شائع ہونے والے کچھ مضامین میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اگر غور کریں تو یہ دونوں موقف اُس مخصوص میکانکی طرزِ فکر کی پیداوار ہیں جس میں چیزوں کو ایک کُل (Whole)میں جوڑنے کی بجائے ایک دوسرے سے کاٹ کے اور الگ الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو کبھی بنیاد پرستوں کے مقابلے میں امریکی سامراج کو ”ترقی پسند“ اور کبھی سامراج کے مقابلے میں بنیاد پرستوں کو ”حریت پسند“ قرار دیتی ہے۔

پاکستان کے حکمران طبقات، سرکاری پالیسی ساز اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے ایک ہی نظام کے نمائندے اور رکھوالے ہیں۔ یہ سب محنت کش طبقے کے استحصال میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ ہاں اس حصہ داری پر ان کے درمیان کبھی آپسی تنازعات ضرور جنم لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ چیز اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی کہ ان میں سے ہر قوت دوسری سے بڑھ کے ظالم اور رجعتی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں جس ”بریٹن ووڈز سسٹم“ کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کی بنیاد رکھی گئی تھی اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ بین الاقوامی اقتصادیات کو یوں تشکیل دیا جائے کہ نوآبادیاتی تسلط کے خاتمے کے بعد بھی سامراجی جبر و استحصال نہ صرف قائم رہے بلکہ زیادہ شدت اختیار کرے۔ اور سابق نوآبادیاتی خطوں کے حکمران طبقات اپنے تاریخی کردار کے عین مطابق بطور کمیشن ایجنٹ اپنا حصہ وصول کرتے رہیں۔

اس نظام میں آئی ایم ایف کے جبر کے سوا کوئی دوسری آپشن موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات کے لئے سرمایہ داری سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔