اداریہ

مطیع اللہ جان کی ’گمشدگی‘ اور رہائی

اداریہ جدوجہد

رات گئے مطیع اللہ جان کو ’رہا‘ کر دیا گیا۔ ان کی ’گمشدگی‘پر ہمارا مندرجہ ذیل اداریہ من و عن پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی ’رہائی‘ سے قبل کی گئیں باتیں ان کی رہائی کے بعد بھی غیر متعلقہ نہیں۔

گذشتہ روز معروف صحافی مطیع اللہ جان کو دن کے گیارہ بجے اسلام آباد کے وسط سے، یعنی جی سیکس سے، وردیوں میں ملبوس افراد زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ سوئے اتفاق کے ’سرکاری اغوا‘ کی سی سی فوٹیج بھی موجود ہے۔ ابھی چند روز پہلے مطیع اللہ جان کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس بھی ملا تھا۔ گذشتہ چند دنوں سے وہ اس نوٹس کی وجہ سے خبروں میں تھے کہ گذشتہ روز خود ایک پریشان کن خبر بن گئے۔

ان کی ’گمشدگی‘ پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان اور پی ایف یو جے کے علاوہ پورے ملک سے لوگ ٹوئٹر اور فیس بک پر سراپا احتجاج بنے رہے۔

مطیع اللہ جان اپنی بے باکی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اسی وجہ سے پہلے ان کی نوکری گئی۔ پھر دھمکیوں کا ایک سلسلہ۔ ایک دفعہ ان پر حملہ بھی ہوا۔ کل ان کو ’لاپتہ‘کر دیا گیا ہے۔ لاپتہ ہونے والے اکثر افراد واپسی پر تشدد کے ہولناک قصے سناتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ جب آپ یہ سطور پڑھیں گے، مطیع اللہ جان نہ صرف جلد رہا ہو چکے ہوں گے بلکہ جاری احتجاج کی وجہ سے ہمیں امید ہے وہ تادم تحریر کسی تشدد کا شکار نہیں بنائے جا رہے۔

مطیع اللہ جان کا واقعہ ایک مرتبہ پھر اس امر کا افسوسناک اظہار ہے کہ:

۱۔ یہاں حکمران طبقہ کسی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ سلیم شہزاد، عمر چیمہ، حامد میر، احمد نورانی اور اب مطیع اللہ جان۔ جو صحافی سرکاری احکامات سے رو گردانی کرتا ہے، اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور قانون بے بس دکھائی دیتا ہے۔

۲۔ جو سلسلہ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں شروع ہوا تھا، اب اسلام آباد تک پہنچ چکا ہے۔

۳۔ عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو نعرے لگاتے تھے کہ ان کی حکومت میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رک جائے گا۔ یہاں اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔

۴۔ صحافیوں کی تنظیمیں اس قدر کمزور ہو چکی ہیں کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں کر پا رہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ:

۱۔ مطیع اللہ جان کو فوراً رہا کیا جائے اوراس واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیا ہے اور آج پولیس اہل کاروں کو عدالت میں طلب کیا ہے۔

۲۔ میڈیا کے تمام ادارے اس واقعے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کریں تا کہ یہ سلسلہ روکا جا سکے۔

۳۔ سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاپتہ ہونے والے افراد کے مسئلے پر یکجا موقف اختیار کریں۔

انف از انف۔

Roznama Jeddojehad
+ posts