لاہور (جدوجہد رپورٹ) اردو کے معروف شاعر راحت اندوری گذشتہ روز کرونا کے ہاتھوں بیماری کا شکار ہو کر ستر برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
ان کا انتقال بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ان کے آبائی شہر اندور میں ہوا۔ 1950ء میں ایک فیکٹری مزدور کے گھر پیدا ہونیو الے راحت اندوری نے اردو میں پی ایچ ڈی کی اور یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے رہے۔
اپنی منفرد شاعری اور انداز بیاں کی وجہ سے وہ ہندوستان اور پاکستان میں یکساں مقبول تھے۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔ ان کی غزل ’بلاتی ہے مگر جانے کا نہیں‘ ٹک ٹاک پر بہت مقبول ہوئی۔ ان کے بے شمار شعر سیاسی جلسوں میں ضرب المثل کی طرح استعمال ہونے لگے تھے۔ ان کا مندجہ ذیل شعر ہندتوا کے خلاف ایک اعلان بن گیا تھا:
سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
وہ سادہ انداز بیاں رکھتے ہوئے انقلابی، سیکولر اور عوام دوست پیغام کو عام کرتے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں ’کپل شرما شو‘میں دو دفعہ بلایا گیا۔
انہوں نے درجن سے زائد فلموں میں گیت بھی لکھے۔ ان کے نصف درجن سے زائد شعری مجموعے اور کتابیں شائع ہوئیں۔