پرویز امیر علی ہود بھائی
انتیس جولائی کو نریندر مودی کی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی لانے کا اعلان کیا جسے قومی تعلیمی پالیسی برائے سال 2020ء کا نام دیا گیا ہے۔ پینسٹھ صفحات پر مشتمل دستاویز پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تعلیم کا احاطہ کرتی ہے۔ مودی کی اس تعلیمی پالیسی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
جی ہاں… سمجھ لیجئے…نئی بھارتی تعلیمی پالیسی صرف ہندی، ہندو اور ہندوستان کے نعرے پر مشتمل ہے۔ بھارت قوم پرستی کو فروغ دے رہا ہے اور اس مشن کے لئے ہندو ثقافت کا سہارا لیا جارہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوتعلیمی پالیسی کا پاکستانی یکساں نصاب تعلیم سے کیا تعلق ہے؟
تو جناب اس کے نعرے میں بھی مماثلت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔۔یعنی ایک قوم ایک نصاب۔
مودی سرکار کی تعلیمی پالیسی پر پہلی نظر بڑی حوصلہ افزا تصویر دکھاتی ہے۔پالیسی میں ہندوستان کے متمول ورثہ، نالندہ اور تاکشیلا کی قدیم یونیورسٹیوں، بھاسکراچاریہ اور برہما گوپت جیسے ریاضی دانوں اورجنان (علم) اور ستیہ (سچ) وغیرہ کی بات کی گئی ہے۔مکمل ادراک اورشخصی آزادی!
اب بتائیں… اس میں کیا قباحت ہے؟ فی الحال تو سب اچھا ہی نظر آرہا ہے… اس پر کون اعتراض کرسکتا ہے؟
بھارتی نئی تعلیمی پالیسی ہماری نوآبادیاتی حساسیت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ ششم اور ہفتم جماعت تک کے ہندوستانی بچے اگر چاہیں تو انگریزی سیکھ سکتے ہیں تاہم تین زبانوں کے نئے فارمولے کے تحت، ریاستیں اور خطے اپنی زبانیں منتخب کرنے میں آزاد ہیں۔ بشرطیکہ تین میں سے کم از کم دو مقامی ہوں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہندوستان میں اصولی طور پر ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی طلباایک ہی طرز کی کتب استعمال کریں گے، ایک ہی کلاس روم میں ایک ساتھ مل کر مطالعہ کریں گے۔پھر ایک ہی طرح کے مضامین کا امتحان بھی دیں گے۔
ہے ناں کمال!
چلیں کچھ حقائق کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ نئے بھارتی تعلیمی نصاب میں بی جے پی کی سرپرست اعلیٰ تنظیم آر ایس ایس کے نظریات کا پرچار کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے پیروکار اپنے گرو و قائد ایم ایس گلوالکر کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔
آر ایس ایس کے قائد ہندوستان کو صاف گوئی پر چلتے ہوئے ہٹلر سے سیکھنے کے مشورے دیتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت آر ایس ایس ہندوستان سے تمام مسلمانوں کی بے دخلی چاہتی تھی۔ سخت گیر مقاصد رکھنے والی تنظیم یقینی طور پر اکیلی مہا بھارت کی وارث بننا چاہتی تھی۔
بھارتی نئے نصاب تعلیم کی رو سے ہندوستان کو اپنے شاندار ماضی سے سبق سیکھنا ہے۔ جہاں ہندو دھرم ہی سب سے افضل و یکتا ہے۔ سنسکرت ثقافتی طور پر مردہ زبان ہے لیکن نئی پالیسی کے تحت یہ تمام مقدس اور سیکولر علوم کی بنیاد ڈالتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئے بھارت کی نئی تعلیم سے اردو کلین بولڈ ہو کر پویلین میں بیٹھی ہے۔ سب جانتے ہیں اردو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے یہاں تک کہ ممبئی فلم نگری میں بھی اردو ہی راج کر رہی ہے۔تاہم قومی تعلیمی پالیسی برائے 2020ء میں مذکورہ اہم ترین زبان ترجیحات میں شامل نہیں۔اردو کے برعکس علاقائی زبانوں میں تامل، تیلگو، کنڑا، ملیالم، اوڈیہ، پالی، فارسی اور پراکرت کو شامل کیا گیا ہے۔
تعلیم کی تمام پالیسیاں کھانا پکانے کی ترکیبیں ہیں۔تمام اجزا ڈالنے کے بعد کیا پک کر سامنے آئے گا؟ تضادات عیاں ہیں۔ یوں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی تعلیمی نصاب بھی بے یقینی کی کالی گھٹاؤں کے زیر اثر دکھائی دے رہا ہے۔
یہ تعلیمی نصاب کن کتب پر مشتمل ہوگا؟ کیا تاریخ کوافسردگی میں لپٹے بوجھل دل کے ساتھ پڑھایا جائے گا… جہاں بیرونی حملوں یا یلغاروں پر اظہار افسوس کیاجائیگا؟یا بتایا جائے گاکہ ان یلغاروں نے تہہ در تہہ، ہندوستانی ثقافت کو ہزاروں سال کے دوران تعمیر کیا؟ یا یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے گی کہ مسلمان محض شیطانی ہیکل کو توڑنے والے ہیں جنہوں نے مدر انڈیا کی جنت کو اجاڑ دیا؟
سوالات کی بھرمار ہے تاہم ایک تشویشناک امر واضح ہو چکا ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں رہنماؤں نے مہاراجہ پرتاپ اور شیواجی جیسی ہندو ہستیوں کوہیرو بنانے کے لئے مغل شہنشاہ اکبر اور اورنگزیب کو زیرو بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔
غور طلب پہلو ایک یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس مسلم دشمنی سے زیادہ عیسائی مخالف ایجنڈے پر بھی گامزن ہے۔
لارڈ مکاؤلے کے زمانے سے ہی کنوینٹ اور دوسرے انگریزی میڈیم عیسائی مشنری اسکول جدید ہندوستانی تعلیم کا اصل مرکز رہے ہیں۔ لیکن آج آر ایس ایس سے وابستہ ہزاروں مقامی زبانوں کے اسکول ان کے خلاف کھڑے ہیں۔ یوں انگریزی زبان کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔
آر ایس ایس کے پرچارک خوش ہیں لیکن گھاٹے میں رہیں گے تو عام ہندوستانی… انگریزی میڈیم اسکولوں اور انگلش نظام تعلیم نے ہی بھارت کو ترقی کے راستے پر ڈالا نہ کہ روایتی پاتشاالوں اور گروکولوں نے… ہندوستان کو جدید بنانے کی کوشش کی تھی تو صرف اور صرف انگریزی جدید تعلیم نے۔
مضحکہ خیزبات ہے کہ ہندوستان اپنے خلا میں بھیجے گئے سیٹلائٹ کا نام ’آریا بھٹہ‘ رکھ بیٹھا ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ نیوٹن کے قوانین ہی ہیں جنہوں نے خلاؤں کو مسخر کیا ہے۔بی جے پی کے وزیرپرکاش جاویڈیکر نے نئے نصاب تعلیم کے مسودے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ مجھے ہندوستانی پریس رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ موصوف اور ان جیسے نو وزیروں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ہندوستانی نصاب قومی یکجہتی کو ایک قدم پیچھے لے گیا ہے۔تیس زبانوں اور ایک درجن سے زائد عقائد کے باوجود جواہر لال نہرو نے بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے راستے پر ڈالا تھا۔اس قومی شناخت پانے کے عمل میں پچاس سال لگ گئے۔اس وقت زیادہ تر مسلمان، سکھ اور عیسائی خود کو ہندوستانی قرار دینے پر فخر محسوس کرتے تھے لیکن جیسے جیسے ہندوستان سیکولرازم سے پیچھے ہٹتاجارہا ہے یہ ہندوستانی ہونے کا قابل فخر پہلو معدوم ہو رہا ہے۔
پاکستان کے نئے یکساں نصاب تعلیم کی اگربات کریں تو اس کے خدوخال گو کہ پوری طرح واضح نہیں تاہم زیادہ تر مواد اس کی سمت کا تعین کرچکا ہے۔
یکساں نصاب پالیسی کی رو سے مذہبی تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں مدرسہ سسٹم تمام سکولوں پر لاگو کرنے کی تیاریاں ہیں۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتحاد تنظیم المدارس کے لمبی داڑھیوں والے صاحبان پاکستانی بچوں کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔کیسی کتب پڑھائی جائیں گی؟اس کافیصلہ بھی یہی حضرات کریں گے۔
نئی پاکستانی پالیسی کے تحت مذہبی عقائد نرسری سے ہی لاگو کر دیئے جائیں گے۔نیا نصاب انتہائی مفصل ہے۔ کلاس ون سے پانچویں تک تعلیم مدارس طرزپر مشتمل ہوگی۔ اس سے بچوں میں تفریق یقینی ہو جائے گی۔ غیر مسلموں کو قرآنی تعلیم پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی یوں ان کو الگ بٹھا دیا جائے گا۔
نئی پالیسی کی رو سے اعلیٰ سطح پر بھی تبدیلیاں یقینی ہیں۔گورنر پنجاب چودھری سرور نے 23 جولائی کو میرے ساتھ ایک ون آن ون نشست میں سوالات کاموقع دیا۔ اس دوران انہوں نے حکومتی فیصلے کی تصدیق کی کہ تمام یونیورسٹیوں میں ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھانے کے انتظام کو یقینی بنایاجائے گا۔ گورنر نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ طلبہ عربی میں مہارت حاصل کریں۔ اس موقع پر ان کے پاس کوئی جواب یا دلیل نہیں تھی کہ عربی پر زیادہ توجہ دینے سے کوئی اچھا ڈاکٹر، ماہر معاشیات، انجینئر اور سائنسدان کیسے بن پا ئے گا؟
پاکستان اور بھارت ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ جہاں پاکستان قومی شناخت بنانے کے لئے عربی اورزبردستی مذہبی عقائد تھوپنے کی کوشش میں ہے۔ ادھر بھارت اپنی ثقافت کی آڑ میں قوم پرستی کا فروغ چاہتا ہے۔بی جے پی کا راستہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ لطیف ہے لیکن ہوشیار ہے کیونکہ وہ ثقافت کو بہت بڑی طاقت مانتے ہوئے عوام کے جذبات ابھارنا چاہتی ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ بحیثیت قوم شناخت بنانے کے مختلف نعرے گونج رہے ہیں جس میں سے ایک آک بھارت شریشٹھ بھارت بھی ہے۔ یہ نعرہ مختلف زبانوں، ثقافتی اقدار کو تو تسلیم کر رہاہے مگر کثیر المذہب ہونا اسے قبول نہیں۔
اب اس کاموازنہ پاکستانی نئے نظام تعلیم سے کریں جہاں علاقائی ثقافتیں اور زبانیں صرف حوالہ جات کی فائلوں میں قید ہیں۔ 1971ء سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔پاکستان اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تشخص کو مستحکم کرنے سے کسی نہ کسی طرح قومی اتحاد پیدا ہوگا۔ یہاں تک کہ اٹھارہویں ترمیم پر بھی تلوار تان لی گئی ہے۔ہندوستان اور پاکستان کی نئی تعلیمی پالیسیاں، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی تقسیم کریں گی۔ اقلیتوں کے حقوق مزید خطرے میں پڑ جائیں گے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہندوستانی پالیسی چالاکی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔
دوسری طرف پاکستانی پالیسی بے سمت اور تضادات کامجموعہ ہے لیکن خوفناک امر یہ ہے کہ اگر یہ لاگو ہو گئی تو فساد بڑھے گااور پھر یقینی طور پر ماضی میں کئے گئے فوجی آپریشن ردالفساد کی طرز کا کوئی نیا فوجی آپریشن ناگزیر ہو جائے گا۔
بشکریہ: سپر لیڈ (https://thesuperlead.com)