فاروق سلہریا
جب تجارتی نیوز چینلوں کو آن ائیر جانے کی اجازت ملی تو پاکستان کے اچھے خاصے دانشور کمرشل الیکٹرانک میڈیم کو ”آزاد میڈیا“ کہنے اور سمجھنے لگے۔ عام لوگوں میں بھی یہ غلط فہمی پیدا ہونے لگی کہ پاکستان میں شائد میڈیا پہلے کی نسبت آزاد ہو گیا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں تھا۔
صرف یہ ہوا تھا کہ پی ٹی وی کی نسبت اس حد تک آزادی دی گئی کہ حزب اختلاف کو بھی جگہ دی جاتی۔ بنیادی سوالات پر حکومت اور سرکاری حزب اختلاف میں کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔ مثلاً کشمیر، افغانستان، ایٹمی طاقت، خلیجی ممالک، چین، بلوچستان، سرمایہ داری، نیو لبرلزم اور نجکاری، مذہب، طالبان، ہندوستان دشمنی…ان تمام باتوں پر اسٹیبلشمنٹ، پی پی پی، مسلم لیگ اور بعد ازاں تحریک انصاف میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ اور تو اور اے این پی بھی تھوڑی آئیں بائیں شائیں کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ہی کاسہ لیسی کرتی نظر آتی ہے۔ کسی کو شک ہو تو سوات میں نفاذِ شریعت کے دفاع میں اے این پی کا بیانیہ پڑھ لے۔
بہر حال پی ٹی وی کے مقابلے پر یہ بظاہر ایک تبدیلی تھی کہ ناظرین حزب اختلاف کو بھی دیکھ سکتے تھے۔ ویسے بھی جب ایک نیا عمل شروع ہوتا ہے تو ریاست کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح بہتر انداز میں کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے، گاہے بگاہے عاصمہ جہانگیر یا پرویز ہود بھائی جیسی آوازیں بھی سنائی دے جاتیں۔ کچھ ٹی آر پی کے چکر میں، کچھ آزاد منش صحافیوں کی بہادری کی وجہ سے ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ کچھ مخالف آوازیں میڈیا میں موجود رہتی ہیں۔ ان مخالف آوازوں کی وجہ سے ”آزاد میڈیا“ کی ساکھ بھی بن جاتی ہے۔
اسی لئے آج سے دس سال قبل راقم نے ”وئیو پوائنٹ“ کے لئے تحریر کئے گئے ایک مضمون میں یہ موقف پیش کیا تھا کہ ترقی پسندوں کو ٹاک شوز کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور اگر بائیکاٹ نہیں کرنا تو اپنی شرائط پر ان ٹاک شوز میں جانا چاہئے۔
سنسنی خیزی اور سازشی نظریات کی مدد سے تقریباً بیس سال تک ”آزاد میڈیا“ نے لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کئے رکھا مگر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ اور حکمران طبقے کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے دھیرے دھیرے ”آزاد میڈیا“ کا بھرم کھلنے لگا۔ یہ آپسی لڑائیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ سنسر شپ بھی بڑھنے لگی۔ صحافتی حلقوں میں واٹس اپ جرنلزم کی اصطلاح رواج پانے لگی۔
ان صفحات پر چند دن پہلے بھی یہ دلیل دی گئی تھی کہ عقل مند حکمران طبقہ میڈیا کو مینی پولیٹ (Manipulate) کرتا ہے۔ بربرانہ سوچ رکھنے والے حکمران میڈیا کو سنسر کرتے ہیں۔ سنسر شپ حکمران طبقے کے لئے بھی ہمیشہ الٹا پڑتی ہے۔ جب میڈیا کو سنسر کیا جاتا ہے تو لوگ افواہوں، سازشی تھیوریوں اور ’غیر قانونی‘ ذرائع ابلاغ پر زیادہ اعتبار کرنے لگتے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی سنسر شپ نے اس کی ساکھ تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ ساکھ کے اس تابوت میں آخری کیل باجوہ لیکس پر خاموشی ثابت ہوئی۔
یہ خاموشی اتنی دھماکہ دار تھی کہ پاکستان کے کان پھٹ گئے۔ اینکر پرسن منہ چھپاتے پھر رہے تھے۔ دو دن قبل جب خبر کی تردید کے لئے اینکر پرسنز ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے تو ان کی حالت دیدنی تھی۔ صحافتی اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ جو خبر آپ نے دی نہیں، اس کی تردید بھی جاری کرنے کا اخلاقی جواز آپ کے پاس نہیں ہے ورنہ یہ تردید نہیں، اجرتی اشتہار ہوتا ہے۔
ایسا نہیں کہ پہلی دفعہ مین سٹریم میڈیا کو خفت کا سامنا ہوا ہے لیکن ماضی میں یہ تھا کہ کبھی اِس چینل کے چہرے سے نقاب ہٹا تو کبھی اُس چینل کے۔ اس کی ایک شرمناک مثال وہ انجینئرڈ انٹرویو تھا جو ملک ریاض نے مبشر لقمان اور مہر بخاری کو دیا تھا۔ ایبٹ آباد آپریشن کی کوریج نے بھی بہت سے اینکر پرسنز اور چینلوں کی ساکھ کو خراب کیا لیکن کچھ مخالف آوازیں بہر حال سنائی دے جاتیں (اس لئے راقم ترقی پسندوں کے بلا مشروط ٹی وی پر آنے کے خلاف تھا۔ یہ ایک اور مثال ہے)۔
لیکن باجوہ لیکس نے میڈیا کے ساتھ جو کیا ہے، اس سے یہ میڈیا سنبھل نہیں پائے گا۔ باب مارلے کے مشہور گیت کے بول یاد آتے ہیں: یو کین ناٹ فول آل دی پیپل، آل دی ٹائم۔
باجوہ لیکس نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کا مقدس میڈیا ننگا ہے۔ پاکستان کے عام شہریوں کے لئے یہ انتہائی قابل ِتحسین پیش رفت ہے۔ میڈیا کی سنسر شپ اور مینی پولیشن کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑے بڑے واقعات ہی ان کا دیوالیہ پن، گراوٹ اور اصل چہرہ لوگوں کے سامنے لاتے ہیں۔
اس میڈیا نے انتہائی عوام دشمن، جمہوریت دشمن اور رجعتی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی بربادی سے ایک خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اس خلا کر پر کرنے کے لئے متبادل پلیٹ فارم تعمیر ہونے چاہئیں۔ یہ کافی نہیں ہے کہ لوگ اپنے اپنے طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اظہار خیال کرتے رہیں۔ وہ بھی ضروری ہے مگر منظم متبادل پلیٹ فارم جو اچھی صحافت کی مثالیں قائم کرے، تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے عرصے میں کچھ اچھے اور معیاری پلیٹ فارم سامنے آئے ہیں۔ ان کی پہنچ بہت تھوڑی ہے مگر امید کی جا سکتی ہے کہ مین سٹریم تجارتی میڈیا کی آمریت اب آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ ”آزاد میڈیا“ اپنی دکان بڑھا لے گا۔ یہ بات البتہ طے ہے کہ کامران خانوں، ارشاد بھٹیوں، ارشد شریفوں اور موئید پیرزادوں کی بات پر ان کے گھر والے بھی اب یقین نہیں کر پائیں گے۔
وائے ستم ظریفی: میڈیا کی حد تک، شکریہ راحیل شریف سے جس سفر کا آغاز جنرل عاصم باجوہ نے کیا تھا، اس کا اختتام شکریہ احمد نورانی سے ہو رہا ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔