فاروق سلہریا
بھٹو صاحب پر دو الزامات اکثر لگتے ہیں۔
سرکاری و نیم سرکاری بیانئے کے مطابق پہلا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ اس لئے لگی کہ بھٹو نے ایوب خان کو ورغلا کر اس جنگ پر آمادہ کیا۔ دوسرا الزام یہ ہے کہ بھٹو نے پاکستان توڑ دیا۔
یہ یقینا پیپلز پارٹی کی ہی ناکامی نہیں، ملک میں جمہوری بیانئے کی بھی کمزوری ہے کہ بھٹو پر یہ الزام اس تواتر سے لگائے گئے کہ ملک کی اکثریت جس نے ستر کی دہائی کے بعد جنم لیا، اس پراپیگنڈے پر اسی طرح یقین کرتی ہے گویا یہ کوئی ابدی سچ ہو۔
پہلے 1971ء کی مختصر سی بات کر لیتے ہیں۔ ملک پر مارشل لا نافذ تھا۔ بھٹو ایک سیاست دان تھا جسے جنرل یحییٰ کی آمریت الیکشن میں کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ویسے بھی بھٹو کی مقبولیت ہی دو صوبوں تک محدود تھی۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان اور سرحد میں بھٹو کو ایک پارلیمانی نشست ملی تھی۔
نہ فوج پر بھٹو کا اختیار تھا نہ سول نوکر شاہی پر۔ بھٹو کا اس سارے بحران میں کردار افسوسناک ضرور تھا۔ وہ فوج کے کاسہ لیس بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے اصولی فیصلے نہیں لئے۔ وہ بھارت دشمنی کو ہوا دینے میں پیش پیش تھے۔ گو انہوں نے ”ادھر ہم، ادھر تم“ کا نعرہ نہیں لگایا (اس سرخی کے خالق عباس اطہر، عمر کے آخری حصے میں بار بار کہا کرتے تھے کہ یہ سرخی بھٹو کے الفاظ کی غلط ترجمانی تھی) مگراس بحران میں انہوں نے موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کا شرمناک حد تک ساتھ دیا۔ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا، بھٹو کو تو فوج نے پاکستان کی نمائندگی کے لئے اقوام متحدہ بھیجا تھا۔ پاکستان بھٹو نے نہیں فوجی آمریت نے توڑا تھا۔ اگر جمہوریت کا احترام کیا جاتا تو عین ممکن ہے پاکستان نہ ٹوٹتا۔
مشرقی پاکستان میں فوج کشی، وہاں کے شہریوں کا قتل عام، آخر میں ہتھیار ڈالنا…یہ سب فیصلے یحییٰ خان کے ٹولے نے کئے۔ جو بھٹو خود ایک جرنیل کے ہاتھوں پھانسی لگا، اس پر 1971ء کا بوجھ لاد دینا ایسا ہی ہے جیسے ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد بارہویں کھلاڑی کو شکست کا ذمہ دار قرار دے دیا جائے۔
اب آئیے 1965ء میں جنگ والی بحث کا جائزہ لیتے ہیں:
ملک پر جنرل ایوب نے سات سال سے فوجی آمریت مسلط کر رکھی ہے۔ بھٹو کی زندگی کا یہ ایک اور افسوسناک دور ہے جس میں وہ ایک آمرانہ حکومت کے وزیر خارجہ ہیں۔ فیصلہ سازی کی حد تک ان کی حیثیت وہی تھی جو آج کل شاہ محمود قریشی کی ہے۔ کسی فوجی آمریت کے دوران کسی سویلین آلہ کار کی کیا حیثیت ہوتی ہے، یہ سمجھنے کے لئے کسی نیوٹن ہونے کی ضرورت نہیں۔
پھر یہ کہ آپریشن جبرالٹر ہو یا کوئی اور فوجی مداخلت، اس کا فیصلہ جی ایچ کیو کرتا ہے۔ بالفرض اگر بھٹو نے ایوب کو ورغلا ہی لیا تھا تو باقی سب جرنیل کہاں تھے؟ ایوب ہو یا یحییٰ…یہ فوجی آمر ہر دفعہ اس آسانی سے سویلین سیاستدانوں کے ورغلاوے میں کیو ں آ جاتے ہیں؟
سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کا موقف:
2 ستمبر 2009ء کی بات ہے۔ میں بی بی سی اردو کا پروگرام ”سیر بین“ سن رہا تھا۔ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر سے بی بی سی 65ء کی جنگ میں بھٹو کے کردار پر سوال کر رہی تھی۔ میں نے پروگرام مانیٹر کیا اور ریاض کھوکھر کے مندرجہ ذیل الفاظ ریکارڈ کر لئے: ”ہم نے سارا ریکارڈ دیکھا ہے۔ بھٹو پر فوجیوں نے ذمہ داری ڈالی ہے“۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔