ڈاکٹر مظہر عباس
زمین کے حق کی اہمیت کو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، عالمی بینک کی ڈائریکٹر، انا ویلینسٹین، اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ”خواتین کو معاشی طور پہ بااختیار بنانے کیلئے اور سرماریہ کاری میں مواقع پیدا کرنے کے لئے ان کے زمین کے حقوق محفوظ کرنا ضروری ہیں۔ یہ ایک ایسا اثاثہ ہے جس کو زراعت یا کاروبار کی ترقی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ حق مالی استحکام کے لئے ٹھوس بنیادبھی پیش کرتا ہے۔“
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اگر خواتین کو کسی طرح سے ملکیت کے حقوق مل بھی جائیں تو بھی دنیا کے نصف ممالک میں ان کا یا تو اپنی زمین پر کنٹرول نہیں ہوتا یا پھر اس کا انتظام ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس طرح وہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر مردوں کے ماتحت ہی رہتی ہیں۔
161 ممالک میں سروے کئے گئے جن میں سے صرف 37 ممالک میں دونوں جنسوں کو زمین کی ملکیت اور اس کے استعمال اور انتظام کے بارے میں مساوی حقوق فراہم کرنے کے یقینی قوانین موجود ہیں۔ بدقسمتی سے خواتین کا یہ حق صدیوں سے نہ تو کسی کسان تحریک کے ایجنڈے میں شامل ہوا اور نہ ہی کسی مارکسی بائیں بازو کی بحث میں زیادہ توجہ حاصل کر سکا۔
پاکستان کی کل اراضی 79.61 ملین ہیکٹر ہے جس کا 47.79 فیصد زرعی ہے جبکہ صرف 27.68 فیصد زیر کاشت ہے۔ اس کے باوجود آبادی کی اکثریت یا تو بے مالک ہے یا پھر بالکل ہی کم اراضی کی مالک ہے۔ مردوں کی صورتحال کے برعکس خواتین محدود دائرے میں بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں۔
مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے معاشی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحر الکاہل نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں 2014ء میں ایک سروے منعقد کرایا تھا جس کے مطابق ایک ہزار گھروں میں سے صرف 36 خواتین کو ملکیت کا حق حاصل ہے اور ان میں سے صرف 9 خواتین کو یہ حق حاصل ہے یا ان کے پاس طاقت ہے کہ وہ اپنے مرد رشتے داروں کی اجازت کے بغیر اپنی ملکیتی زمین بیچ سکتی ہیں یا اس کی تجارت کر سکتی ہیں۔
لہٰذا مردوں کے برعکس صنف اور طبقہ کی وجہ سے خواتین پر دوہرا دباؤ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طبقاتی اور ذات پات پر مبنی معاشرے میں خواتین کی حیثیت پدرسری، جاگیردارانہ، قبائلی اور سرمایہ دارانہ معاشرتی تعمیرات کی وجہ سے بڑے پیمانے پہ متنوع ہے جیسا کہ طبقہ، صنف، ذات اور علاقہ (دیہی یا شہری) وغیرہ۔ اس کے علاوہ، اس قدامت پسند معاشرے میں زیادہ تر خواتین پر یہ ذمہ داری عائد کی جاتی ہے کہ وہ اپنی معاشرتی نقل و حرکت، سیاسی اور ثقافتی اتحاد اورضابطہ لباس کو محدود کرکے اپنے کنبے کے ”اعزاز“ کو برقرار رکھیں۔
اگرچہ وراثت خواتین کے لئے اراضی کے حصول کا کلیدی ذریعہ ہے لیکن انہیں معاشرتی اور مذہبی اصولوں اور اقدار کی وجہ سے، جو زیادہ تر انفرادی اور معاشرتی مشقوں یا روایات پر حکومت کرتی ہیں، اس حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی وہ تین فیصد خواتین جو زرعی اراضی کی مالک ہیں کے پاس نہ صرف زرعی آدانوں اور آب پاشی کے پانی تک رسائی کا فقدان ہے بلکہ ان کے پاس زمین بیچنے یا خریدنے کا حق بھی نہیں ہے۔ اس سے ان کی کاشتکاری کے طریقہ کار کم موثر ہوتے ہیں۔
اس طرح کے مسائل نئے نہیں ہیں بلکہ یہ نوآبادیاتی نظام کا تاریخی تسلسل ہیں۔ مورخین، مثال کے طور پر ڈبلیو ایچ ریٹنگن اور ڈیوڈ گلمارٹن، کا خیال ہے کہ برطانوی راج نے خصوصاً پنجاب اور سندھ میں وراثت کو مسلم شریعت کے قانون کی بجائے علاقائی رواجوں کے ذریعے چلانے کو ترجیح دی اور رواج یہ تھا کہ جائیداد کنبے کے صرف مرد افراد میں منتقل کی جائے گی۔ اگر کوئی مرد ممبر نہ ہوتا تو جائیداد قبیلے یا گاؤں کی برادری کو منتقل کر دی جاتی۔ مختلف محققین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی کا مقصد زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے گریز کرنا تھا جس نے قرابت داری کے استحکام کویقینی بنایا، جس کے نتیجے میں ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کو تقویت ملی۔
1947ء میں تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے بعد خواتین کے زمین کی ملکیت اور اس کے استعمال اورانتظام کے حقوق کو یقینی بنانے کے لئے مختلف کوششیں کی گئیں۔ آئینی تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اراضی کے معاملات کو چلانے کے لئے دو درجن سے زائد قوانین منظور کئے گئے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 23 میں لکھا گیا ہے کہ ”ہر شہری کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں جائیداد کو حاصل کر سکتا ہے، رکھ سکتا ہے اور ضائع کر سکتا ہے۔“
مشترکہ طور پر ان کوششوں سے پتہ چلتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کی میراث سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور املاک کے حقوق میں صنفی امتیاز کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ تاہم مذہبی احکامات اور علاقائی اور قبائلی رسم و رواج بھی خواتین کے اپنی جائیداد پہ قابو پانے پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
خواتین کے املاک کے حقوق سے متعلق ایک طرف تو قوانین میں تضادات ہیں جبکہ دوسری طرف نظریہ اور عمل میں بالکل واضح اختلاف ہے۔ اؤل تو ازدواجی جائیداد کی باہمی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اسلامی قانون مہر کی ادائیگی کی توثیق کرتا ہے، تاہم بیوی کو شادی کے موقع پر یا بعد میں بیوی کے ذریعہ (خصوصا ًبیوی پہ اثر انداز ہو کے) مہرموخرکر دیا جاتا ہے یا پھرمعاف کر دیا جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر کوئی عورت خود طلاق لینے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اپنے مہر کے حق سے دستبردار سمجھی جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ گھریلو اراضی یا کسی اور ایسی اراضی تک رسائی کا اپنا حق کھو دیتی ہے جس پر اس کے شوہر کے اہل خانہ کا قبضہ ہوتا ہے۔
1980ء کی دہائی تک زمینی اصلاحات کے ذریعے تقسیم شدہ عوامی اراضی کو حاصل کرنے کا حق صرف گھر کے مرد سربراہ کو حاصل تھا ما سوائے ان چند گھرانوں کے جہاں بالغ مردوں کے بجائے بیوہ عورتیں گھر کی سربراہ ہوتی تھیں۔ قانون سازی میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے کچھ خواتین کو وراثت میں ملنے والی جائیدادوں کا انتظام سنبھالنے کا حق ملا۔ تاہم جب اقوام متحدہ نے 1975-1985ء کے عشرے کو خواتین کا عشرہ قرار دیا تو دونوں صنفوں سے جائیداد کی ملکیت، استحقاق، حصول، انتظام اور تبادلے (چاہے وہ بلامعاوضہ ہو یا بامعاوضہ) سے متعلق ایک جیسے حقوق کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان نے اس اعلامیہ اور متعدد دیگر کنونشنوں اور اعلامیوں پر دستخط کئے ہیں تاکہ ملک میں خواتین کے جائیداد خاص کر کے وراثتی جائیداد کے حقوق کا نہ صرف دفاع کیا جا سکے بلکہ ان کا فروغ بھی کیا جا سکے۔
اراضی ملکیت کا حجم، معاشی طاقت، سیاسی اثر و رسوخ اور معاشرتی حیثیت کا تعین کرنے والا ہونے کی وجہ سے، زمین کوخاندان کے اندر رکھنے کی نہ صرف ضرورت پیدا کرتا ہے بلکہ اس میں شدت بھی پیدا کرتا ہے۔ نتیجتاً شادی شدہ خواتین کو ان کی شادی کے بعدان کے اپنے والدین کے خاندانوں کا حصہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر ان خواتین کو وراثت دی جاتی ہے تو ان پہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی وراثت کو جہیز کے بدلے میں اپنے بھائیوں کے لئے ترک کر دیں۔ مزید برآں، اس طرح کے عمل ان کے اپنے رشتے داروں کے ساتھ تعلقات کومحفوظ بناتے ہیں تاکہ وہ ضرورت کے وقت ان پہ انحصار کر سکیں۔ مثال کے طور پر یہ قرابت دارانہ تعلقات انہیں اپنے بچوں کو بھی قبیلے میں ہی شادی کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ بصورت دیگر ان کو اور ان کے بچوں کو کنبے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
جہیز کے بدلے اراضی کو ترک کرنے کے علاوہ متعدد خواتین کی پیدائش اور شادیوں کا اندراج نہیں کرایا جاتا جو کہ نہ صرف ان کی ملکیت اور وراثت کے حق کو پیچیدہ بناتے ہیں بلکہ ان کے حصول میں بھی رکاوٹ بھی بنتے ہیں لہٰذا اگرچہ انہیں قانون کے تحت وراثت کا حق حاصل ہے لیکن عملی طور پر بہت سی خواتین زمین کی وارث نہیں ہوتیں۔
خواتین سے جبر، تشدد اور ثقافتی طریقوں کے ذریعے سے ان کی وراثت ہتھیانے کے متعدد ذرائع اور مقدمات ہیں جیسا کہ حق بخشوانا، عم زادسے شادی کرنا اور وٹہ سٹہ وغیرہ۔ یوں خواتین کا ملکیت کے حق سے خروج اور زمین کے انتظام کے حق سے محرومی سے پدرشاہی اور غربت کو مزید فروغ ملتا ہے۔ آئینی اور مذہبی قوانین کی نئی تشریحات اور رسوم و رواج کو ختم کرنے کے علاوہ، خاندانوں میں خواتین کو زمین کی ملکیت کا حق دینے اور اس کاانتظام سنبھالنے کی اجازت دینے کی ایک کثیرالجہتی پالیسی کی اشد ضرورت ہے اور خواتین کو خود بھی اپنے ملکیتی حقوق اور اپنی جائیداد کے انتظام کے حصول کا مطالبہ کرنا چاہئے۔