شریف
جب لہریں تھم جاتی ہیں تو تب ہی پتہ چلتا ہے کہ کون کون ننگا تیر رہا تھا، یہ بات آج کی عالمی نظام معیشت کی صورتحال کو واضح کرتی ہے۔ ایک وقت تھا دنیا میں قدیم اشتراکی نظام تھا۔ تاہم ایسے قدیم سماجوں کی حالت زیادہ تر دلکش نہیں ہوتی تھی۔ فطرت کے خلاف جدوجہد انتہائی کٹھن اور تلخ تھی۔ تاہم انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال اور جبر موجود نہیں تھا۔ پھر وقت کی گاڑی نے راستہ پلٹا، نظام تبدیل ہوا۔ اب سماج غلام داری نظام میں داخل ہو چکا تھا۔
پہلی بار انسانی سماج میں آقا اور غلام کا طبقہ بمعہ طبقاتی نظام کے نمودار ہوا جو کسان و جاگیردار اور مزدور و سرمایہ دار کی شکل میں جاری ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس قدر وسیع بیروزگاری پہلے کبھی نہیں تھی حالانکہ پوری انسانی تاریخ میں دنیا اس قدر جدید، علمی، سائنسی اور تیکینکی سہولتوں سے مالا مال بھی نہیں تھی۔
ٹیکنالوجی اور جدید پیداواری طریقوں کی موجودگی میں آج بھی انسان روزگار کا متلاشی ہے۔ ذرائع پیداور اور جدید ٹیکنالوجی میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ کرۂ ارض پر موجود تمام انسانوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ پیداوار کی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود نسل انسان کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت میں غرق ہو رہی ہے۔
اسی بات کو کارل مارکس نے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل اپنی کتاب ”سرمایہ“ میں یوں لکھاتھا: ”ایک طرف دولت کے انبار ہیں اور عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کی انتہا ہے۔“
امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو دنیا کے امیرترین افراد کی تعداد دو گنی ہو رہی ہے، دوسری طرف پسماندہ ممالک کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ انہیں پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا، بچے اسکولوں سے اس لیے باہر ہیں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، لاکھوں نوزائیدہ بچے اپنی عمر کے پہلے سال ہی میں فوت ہو جاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان ملکوں میں انہیں صحت کی نگہداشت کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔
ایسے میں چند افراد کے ہاتھوں میں اتنی دولت جمع ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں کم از کم دو صدیوں تک آرام و آسائش کی زندگیاں گذار سکتی ہیں۔ غربت اور امارت کی اس وسیع خلیج نے محنت کش طبقے کی زندگیوں پر ناگزیر طور پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ انتہائی بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی نہ ہونے، معاشی بدحالی اور انتہائی مہنگے داموں تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے مواقع نہ ہونے جیسے مسائل نے لوگوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
پاکستان سرمایہ دارانہ ناکامیوں کا عجائب گھر ہے۔ نام نہاد ’نیا پاکستان‘ میں معیشت، سیاست، ثقافت، ریاست، سفارت اور اخلاقیات سمیت سماج کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو بحرانوں میں نہ گھرا ہو۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کا عفریت آبادی کی وسیع اکثریت کو نگل رہا ہے۔
افراطِ زر پالیسی سازوں کے قابو سے باہر ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ادویات بیماروں کی پہنچ سے دور ہوتی جاتی ہیں۔ بجلی و گیس کے نرخ ہر روز بڑھ رہے ہیں۔ یہی حال پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ ایک طرف بیروزگاری کا سمندر ہے تو دوسری طرف جو برسر روزگار ہیں ان کے سروں پر نجکاری، چھانٹیوں اور جبری بے دخلیوں کی تلوار لٹک رہی ہے۔
یہ حکمران عالمی سامراجی اداروں کی ایما پر بیش قیمت پبلک اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ سرمایہ داروں کو بیچنے کے درپے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور سیاسی مقدموں میں کہیں زیادہ شدت آ گئی ہے۔ دوسری طرف ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قومی تعصبات اور مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دے کر عوامی غم و غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہو رہا ہے کہ اس سے ہم آہنگ رہنا قدامت پسند دماغوں کے بس کی بات نہیں۔ موجودہ عالمی نظام میں اب مزید صلاحیت کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ جو جزوی اصلاحات اور پیوند لگانے سے کوئی بہتری آئے گی۔ تاریخی ارتقا اس فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ صرف عوام کی براہ راست مداخلت ہی رجعتی رکاوٹوں کو توڑ کر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔