سماجی مسائل

روزمرہ کے مسائل: چائلڈ لیبر اور ہمارے رحم دل مڈل کلاسیے!

فاروق سلہریا

چائلڈ لیبر یا بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ معاشی نا ہمواری، غربت اور طبقاتی جبر کا اظہار ہے۔ یہ روز مرہ کے عام مسائل کے مقابلے میں بہت سنگین سماجی مسئلہ ہے۔

میرا کرائے کا گھر جہاں واقع ہے وہ لاہور کے متمول ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ گلی کے اکثر گھروں میں کام کرنے والوں میں بچے ہی نظر آتے ہیں۔ گاڑی یا موٹر سائیکل ٹھیک کروانے جائیں گے تو آپ چھوٹے بچوں کو کام کرتا پائیں گے۔ کسی سستے   کیفے یا ریستوران میں کھانا کھانے یا چائے پینے جائیں تو آپ کا سامنا مشقت کرتے ہوئے بچوں سے ہو گا۔ سڑک کے کنارے بھیک مانگتے بچوں کو بھی اس زُمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

حکومت کے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں جن کے حالات غلامی سے بدتر ہیں۔

گھروں میں بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ استحصال کے علاوہ منافقت کا بھی بدترین اظہار ہے۔ اس لئے آج اس پر بحث کی جائے گی۔

پہلی بات تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری اشرافیہ تو اشرافیہ‘ مڈل کلاسیے بھی اپنا کھانا خود کیوں نہیں بنا سکتے؟ اپنے بچے خود کیوں نہیں پال سکتے؟بچے پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟ اپنے لئے چائے کا کپ بناتے ہوئے انہیں موت کیوں پڑتی ہے؟ اپنا گھر صاف کیوں نہیں کر سکتے؟

اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو ہر وقت مذہبی شخصیات کی مثالیں کیوں دیتے ہیں؟ اور مغربی ممالک کے سربراہان کی وہ تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ کیوں پوسٹ کرتے ہیں جن میں وہ اپنے گھروں کے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں؟

’حکومت کے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں ایک کروڑ پچیس لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں‘

اگر منافقت اسی حد تک ہوتی تو چلو قابلِ برداشت ہوتی۔ مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کام کرنے والے محنت کشوں (جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے) کو بنیادی تنخواہ (Minimum Wage) تک بھی نہیں دی جاتی۔

یہ منافقت اُس وقت اپنے عروج پر بلکہ پستی کی گہرائیوں میں گری دکھائی دیتی ہے جب بات چائلڈ لیبر تک پہنچتی ہے۔ اور اس سب پر مستزاد مڈل کلاس مفافقین کی نظریاتی لیپا پوتی!

چائلڈ لیبر کو جائز قرار دینے کے لئے ایسے ایسے جواز پیش کریں گے کہ کچھ دیر کے لئے انسان سوچنے لگتا ہے کہ یا تو ایک آدھ بچے کو رسوئی کے برتن مانجھنے کے لئے ملازم رکھ لے یا اپنے دس سالہ بچے کو بھی کام پر لگا دے۔

چھوٹتے ہی بولیں گے: اگر ہم اس بچے کو ملازم نہ رکھتے تو کسی ورکشاپ پر کام کر رہا ہوتا۔

پھر بتائیں گے کہ وہ گھر میں کام کرنے والے بچے یا بچی کا اِس قدر خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر واپس جانا ہی نہیں چاہتا۔

یہ دلیل سن سن کے تو اب کان پک چکے ہیں: اس کے ماں باپ خود اسے ہمارے گھر چھوڑ گئے تھے۔

یہ دلیل بھی سنی ہو گی کہ ہم نے اس کی قرآنِ پاک کی تعلیم کے لئے وہی قاری صاحب رکھے ہوئے ہیں جو ہمارے اپنے بچوں کو پڑھانے آتے ہیں۔

ایک عام سا نیک جواز یہ بھی ہوتا ہے کہ بس جھاڑو پونچا اور برتن ہی تو دھلواتے ہیں‘ کون سا سخت کام لیتے ہیں! (ویسے اگر برتن دھونا اور جھاڑو دینا اتنا آسان ہے تو جناب آپ اپنے بچوں سے یہ کام کیوں نہیں کروا لیتے؟)

یہ دہرانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ ان بچوں کو عید پر نئے کپڑے بھی ملتے ہیں۔ زکوٰۃ، خیرات اور مزدور بچوں کے والدین کی اضافی مدد بھی کی جاتی ہے۔

لیکن مندرجہ بالا باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اکثر بچوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ پھر بھی بچوں کو ملازم رکھنے والے سب نیک دل اور پارسا خواتین و حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ جناب! اگر آپ کو غریب بچوں کا اِس قدر خیال ہے تو متعلقہ بچے کو ملازم رکھنے کی بجائے انہیں اڈاپٹ کیوں نہیں کر لیتے؟

اس سے بھی زیادہ اچھا ہو گا کہ آپ اُس بچے کے ماں باپ کو بنیادی تنخواہ (جو آج کل پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے اور جس میں اضافہ ہونا چاہئے) پر ملازم رکھنے کے علاوہ دیگر لیبر قوانین کی بھی پابندی کریں تو غریب لوگوں کے بچوں پر شاید اتنا رحم کھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

علاوہ ازیں اگر اِس ”تبدیلی“ کا شوق پورا ہو گیا ہو تو کسی حقیقی سماجی تبدیلی کی بات کریں جس کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

بچوں کو ملازم رکھنے سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ بچوں سے مشقت اور غربت کا نظام طول پکڑتا ہے۔

سیاستدانوں کی بد عنوانی سے پریشان مڈل کلاس کی خدمت میں مزید عرض ہے کہ بچوں سے مزدوری لینا ملکی قانون کی اُسی طرح خلاف ہے جس طرح آصف علی زرداری کی بے نامی جائیدادیں۔


ہمارا ”روزمرہ کے مسائل“ کا سلسلہ بالکل مختصر مضامین پر مشتمل ہو گا جس میں آپ بھی کسی سماجی مسئلے اور اس کی وجوہات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحریریں یا آرا ہمیں یہاں ارسال کریں۔


Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔