لاہور (جدوجہد رپورٹ) میانمار کی حکمران جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت (این ایل ڈی) نے پیر کے روز دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اکثریت حاصل کرتے ہوئے اقتدار برقرار رکھنے کی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ تاہم ریاستی یونین الیکشن کمیشن نے اتوار کو ہونے والے انتخابات کے نتائج ابھی تک مکمل نہیں کئے ہیں۔
این ایل ڈی کی انفارمیشن کمیٹی کے ترجمان مونیو آنگ شن نے دعویٰ کیا کہ وہ 322 سے زیادہ نشستیں حاصل کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ میں 642 نشستیں ہیں۔
ہم مجموعی طور پر 377 نشستیں حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اب لگتا ہے اس سے بھی زیادہ نشستیں ہونگی۔ فورٹی فائی رائٹس کے ریجنل ڈائریکٹر اسماعیل ولف نے پیر کو جاری کئے گئے بیان میں کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتخابات کا بنیادی اصول آفاقی اور مساوی استحکام ہے اور یہی کل نہیں ہو سکا۔ عالمی برادری کو روہنگیا اور دیگر نسلی قومیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرنی چاہیے، فورٹیفا رائٹس کے ریجنل ڈائریکٹر، اسماعیل ولف نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا، ”بین الاقوامی قانون کے تحت انتخابات کا ایک بنیادی اصول آفاقی اور مساوی استحکام ہے اور یہ وہی نہیں تھا جو کل ہوا تھا۔“ بین الاقوامی برادری کو روہنگیا اور دیگر نسلی قومیتوں کی آزادی سے آزادانہ طور پر مذمت کی جانی چاہئے اور مستقبل میں ان خلاف ورزیوں کے سد باب کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ انکے انتخابات پر دیگر تحفظات میں حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی اور پر امن اسمبلی کے حقوق پر شب خون مارنے کیلئے مسلسل کریک ڈاؤن، بشمول سول سوسائٹی سرگرموں کی من مانی گرفتاری اور نظر بندی کا سلسلہ بھی شامل ہے۔
نشریاتی ادارے اے پی کے مطابق ووٹر ٹرن آؤٹ سے متعلق کوئی معتبر سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ یونین الیکشن کمیشن نے پہلے کہا تھا کہ مکمل نتائج جاری کرنے میں ایک ہفتہ یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
اے پی کے مطابق این ایل ڈی کی فتح کی پہلے سے ہی توقع کی جارہی تھی، لیکن یہ قیاس بھی کیا جا رہا تھا کہ گزشتہ انتخابات کی اتحادی نسلی اقلیتی جماعتوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے این ایل ڈی کو ملنے والی نشستوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔
این ایل ڈی کی زیادہ تر مہم آنگ سان سوچی کی مقبولیت پر مبنی ہے، جو 2015ء کے انتخابات کے بعد سٹیٹ کونسلر کے طور پر حکومت کی سربراہ بنی تھیں۔ تاہم انکی انتظامیہ کا ریکارڈ کچھ زیادہ بہتر نہیں رہا، معاشی نمو توقعات سے کم رہی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف مسلح تنازعات کا خاتمہ بھی نہیں ہو سکا۔ تاہم وہ فوجی آمریت کے خلاف دہائیوں پر مبنی جمہوری جدوجہد کی وجہ سے اپنے شہریوں کے مابین اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
میانمار سے باہر سوچی کی ساکھ مسلمان روہنگیا اقلیت کے انسانی حقوق کا تحفظ نہ کرنے کی وجہ سے مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ انکے غیر ملکی حامی حیران ہیں کہ انہوں نے میانمار کی فوج کی جانب سے بغاوت کو کچلنے کی وحشیانہ مہم کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے سات لاکھ چالیس ہزار روہنگیاجان بچا کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
تاہم یہ مسئلہ ووٹرز کیلئے پریشانی کا باعث نہیں بنا، کیونکہ نسلوں سے میانمار میں آباد ہونے کے باوجود گہرے سرائیت کئے گئے تعصب کی وجہ سے روہنگیا کو جنوبی ایشیا کے غیر قانونی تارکین وطن سمجھا جاتا ہے۔ صرف چند روہنگیا کو شہریت یا شہری حقوق بشمول ووٹ کا حق حاصل ہیں۔
گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران سرکاری میڈیااور سوشل میڈیا پر براہ راست مہم کے ذریعے سوچی اپنی شبیہہ کو دوبارہ مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئیں اور میانمار نے کورونا وائرس کا بھی مقابلہ کیا۔
روایتی الیکشن مہم اور بڑے جلسوں پر بھی کوروناوائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے بہانے پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ میانمار کے انتخابات میں 90 سے زیادہ جماعتوں نے حصہ لیا اور 37 لاکھ افراد پہلی بار ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔
سو چی کی این ایل ڈی نے 2015ء میں ایک واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی اور پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ سے قائم فوجی حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔