خبریں/تبصرے

برطانیہ: سامراجی جنگوں کی مخالفت پر طارق علی دہائیوں تک خفیہ جاسوسی کا نشانہ بنے

لاہور (جدوجہد رپورٹ) بائیں بازو کے دانشور اور صحافی طارق علی کی برطانوی خفیہ پولیس کے افسران کی جانب سے کئی دہائیوں تک خفیہ جاسوسی کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ بات ایک عوامی تفتیش کے دوران سامنے آئی ہے جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ برطانوی خفیہ پولیس کے کم از کم چودہ افسران طارق علی کی جاسوسی کے دوران انکی سیاسی سرگرمیوں کو ٹیپ کرنے کےلئے غیر معمولی حد تک گئے۔

قبل ازیں خفیہ رپورٹس میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ پولیس نے ویتنام جنگ، پرتشدد نسل پرستانہ حملوں، فاشز کے خلاف اور دیگر ترقی پسند اقدامات کےلئے سیاسی مہم میں حصہ لینے پر کئی دہائیوں تک انکی نگرانی کی۔ حالیہ نگرانی 2003ءمیں شروع کی گئی جب طارق علی عراق جنگ کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔

دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر پولیس نے ایم آئی فائیو کو رپورٹ دی کہ روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی کے بارے میں ایک کارٹونسٹ سے مل کر طارق علی ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ مذکورہ خفیہ رپورٹ میں کارٹونسٹ کی گرل فرینڈ کا نام، اسکے ایڈریس اور دوستوں سے متعلق بھی معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

طارق علی نے خفیہ نگرانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ سن کر شدید صدمہ ہوا کہ ایم آئی فائیو نے مبینہ طور پر ویتنام کی جنگ کے خلاف مہم کے دفاتر پر چھاپے مارے اور ریکارڈ چوری کیا۔

76 سالہ طارق علی وہ پہلے گواہ تھے جنہوں نے تحقیقات کی قیادت کرنے والے جج سر جان مٹنگ کے سامنے براہ راست ثبوت پیش کئے۔ مذکورہ جج کی قیادت میں انکوائری میں 1968ءسے اب تک خفیہ پولیس کی جانب سے ایک ہزار سے زیادہ سیاسی گروہوں کی نگرانی کئے جانے کے اقدامات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

انکوائری کے دوران انکشاف ہوا کہ پولیس نے 1965ءمیں اس وقت طارق علی کی سیاسی سرگرمیوں کی ریکارڈنگ شروع کردی تھی جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔

1960ءکی دہائی کے آخر میں طارق علی نے ویت نام کی جنگ کے خلاف چلنے والی مہم کے ایک اہم ممبر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی، وہ اکثر ریلیوں میں تقاریر کیا کرتے تھے۔ اسی دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ نے خفیہ افسران کا ایک خفیہ دستہ (ایس ڈی ایس) قائم کیا، تاکہ بائیں بازو کے گروہوں میں مداخلت کی جا سکے۔

طارق علی نے 1968ءمیں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد صحافت کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی ایک تنظیم انٹرنیشنل مارکسسٹ گروپ (جو چوتھی انٹرنیشنل سے منسلک تھا) میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیلات مارچ 1968ءسے نومبر 2003ءکے درمیان 80 خفیہ پولیس رپورٹس میں درج کی گئیں، جن میں زیادہ تر ایس ڈی ایس کے لئے کام کرنے والے خفیہ افسران کے ذریعہ جمع کردہ معلومات شامل تھیں۔

طارق علی نے ان چودہ افسران کے نام انکوائری میں پیش کئے، جن کے نام خفیہ رپورٹس میں 1968ءسے 1976ءکے دوران ان کی جاسوسی کرنے کی فہرست میں سامنے آئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق برطانوی ہوم آفس اورایم آئی فائیو کی منظوری سے پولیس نے مارچ 1968ءمیں ویتنام جنگ کے مظاہروں کے دوران بدنظمی کے بعد ایس ڈی ایس کو تشکیل دیا۔ انکا موقف تھا کہ انہیں سیاسی واقعات میں مزید بدنظمیوں کو روکنے کےلئے مظاہرین کے اندر مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔

طارق علی نے کہا کہ بدنظمی کے امکان کو پولیس نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جو سراسر غلط اقدام تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ”ایس ڈی ایس کے افسران کو لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی یہ کھلی اجازت خطرات کی غلط اطلاعات کی بنیاد پر دی گئی“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”ایس ڈی ایس کے پہلے سربراہ کونرا ڈڈکسن نے تشدد کے خطرات کا کھیل کھیل کر سب کچھ حاصل کیا۔ اس سب نے اسے اپنی ذاتی کمان کے تحت ایک نیا یونٹ دیا اور پانچ لاکھ پاﺅنڈ کا بجٹ بھی دیا۔“

انہوں نے انکوائری کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ ایک خفیہ افسر کی جانب سے ویتنام جنگ مخالف مہم کے دفاتر کی چابیوں کی کاپیاں بنانے کے الزام کی بھی تحقیقات کی جائیں، جنکا مقصد ایم آئی فائیو کو بعد میں معلومات چوری کرنے کے قابل بنانا تھا۔ انہوں نے کہا ”اس قدر گہری ریاستی نگرانی ایک ایسی چیز ہے جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔“

انہوں نے کہا کہ 1984ءمیں، پولیس نے لندن میں نسل پرستانہ حملوں کی روک تھام کے لئے انسداد نسل پرستانہ مہم چلانے والوں کے ذریعہ منعقدہ جلسہ عام کے بارے میں ایم آئی 5 کو ایک رپورٹ بھیجی۔ علی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

انہوں نے انکوائری کے دوران کہا کہ ”اس وقت سپیشل برانچ نسل پرستانہ قتل عام کو روکنے کے لئے کیا کر رہی تھی؟ ہم میں سے جو لوگ اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی جاسوسی کر رہی تھی“۔

انہوں نے کہا کہ ایم آئی فائیو کو دی گئی ایک رپورٹ میں 1982ءمیں مغربی لندن میں ستر افراد کی ایک میٹنگ کی ریکارڈنگ کی گئی، جو اینٹی نازی لیگ نے منظم کی تھی۔ طارق علی نے بتایا کہ پولیس نے رپورٹ کیا کہ میں مرکزی سپیکر تھا اور میں نے نسل پرستی کو بیروزگاری سے جوڑنے سے متعلق تقریر کی۔

2003ء کی تازہ رپورٹ اس وقت کی ہے جب طارق علی عراق پرحملے کو روکنے کےلئے کوشاں جنگ مخالف اتحاد کی قومی کمیٹی میں منتخب ہوئے۔ طارق علی نے کہا کہ ایس ڈی ایس کے خفیہ افسروں کو اس اتحاد میں مداخلت کےلئے تعینات کیا گیا، جس طرح ویتنام جنگ کے خلاف مہم کےلئے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ کافی حیرتناک ہے کہ پینتیس سال بعد 2003ءمیں، ٹونی بلیئر کی لیبر حکومت میں بھی اسپیشل برانچ اسی طرح کی غیرجمہوری سرگرمیوں میں مصروف تھی، جیسا کہ وہ پہلے کرتی تھی۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts