فاروق طارق
’خرکہ مر‘ چیک پوسٹ (شمالی وزیرستان) پر فائرنگ کے واقعے کی ایک اور ویڈیو کی سوشل میڈیا پر ریلیز نے ایک بار پھر یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ پر فوجی چوکی پر حملے کا الزام بالکل غلط ہے۔ اس ویڈیو میں علی وزیر ایک ریلی کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں اور ان پر گولیاں سامنے سے چلائی گئیں۔ یہ تو ایک معجزہ ہی لگتا ہے کہ وہ گولیوں کی بوچھاڑ سے بچ گئے۔
اسی علاقے میں پچھلے چند روز میں دفاعی اداروں کے آٹھ افراد کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے جن میں تین اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ جیسے ہی یہ واقعہ ہوا کسی بھی ثبوت کے بغیر عمران خان کی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے کہہ دیا کہ اس کے ذمہ دار علی وزیر اور محسن داوڑ ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہی تھا جیسے پہلے کہا گیا تھا کہ علی وزیر اور محسن داوڑ نے فوجی چوکی پر حملہ کیا ہے۔
یوں حکومت انتہائی غیر ذمہ داری، اشتعال انگیزی اور ڈھٹائی کا ثبوت دے رہی ہے اور مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھا رہی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات ماننے یا ان پر بات کرنے کی بجائے اس تحریک کو جبر سے دبانے کی کوشش کی جا ر ہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مرکزی رہنما منظور پشتین کے علاوہ تقریباً تمام قیادت گرفتار ہے یا ان کیخلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
تازہ ترین گرفتار ہونے والوں میں عبداللہ ننگیال اور ادریس پشتین شامل ہیں۔ جبکہ اس تحریک کی ایک رہنما عائشہ گلالئی وزیر کے گھر مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ان رہنماؤں کو غدار، غیرملکی ایجنٹ، فوج مخالف، دہشت گرد اور ملکی سالمیت کے دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔
ممتاز تجزیہ کار ایاز میر نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کو افغان ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کی قومی اسمبلی میں جس تحریک پر تمام ممبران نے ووٹ دیا وہ فاٹا کے علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کے لئے نہیں بلکہ پاکستان میں ضم کرنے اور ان کی نشستیں بڑھانے کے لئے تھی۔
تازہ اطلاعات کے مطابق علی وزیر اور محسن داوڑ کو جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومتی وکیل دہشت گردی کی بنوں عدالت سے مزید جسمانی ریمانڈ کا تقاضا کر رہے تھے۔ پشاور جیل میں ان سے ملاقاتوں پر پابندی ہے اور عید کے روز بھی انہیں ان کے قریبی عزیزوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔
ادھر علی وزیر کی والدہ محترمہ خوازہ مینہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ظلم کے خلاف مشترکہ جدوجہد ہونی چاہیے اور وہ بھی علی وزیر اور دیگر کے لئے باہر نکلیں گی۔ یاد رہے کہ وہ اپنے خاوند اور بیٹوں سمیت 16 قریبی رشتہ دار پہلے ہی طالبان کے خلاف جدوجہد میں کھو چکی ہیں۔
علی وزیر، محسن داوڑ اور دیگر گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 3 جون کو پشاور میں جاری دھرنے کو پولیس کی لاٹھیوں کا نشانہ بنایا گیا اور دھرنے پر بیٹھے افراد پر شدید تشدد کیا گیا۔
ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، سوات، وانا، موسیٰ خیل، مردان، موساکی شمالی وزیرستان اور بنوں میں بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ جن میں تمام ریاستی جبر کے باوجود ہزاروں افراد کی شرکت ہوئی ہے۔
بیرون ملک میں جرمنی، سویڈن، آسٹریلیا، ملیشیا، برطانیہ، ہالینڈ اور امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ اور ان میں شامل ہونے والوں کی تعداد بھی متاثر کن تھی۔
یورپی یکجہتی کی تنظیم کی عالمی پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت تک پانچ سو سے زیادہ نامور پروفیسر، ٹریڈ یونین رہنما، بائیں بازو کے متحرک کارکنان، مختلف ممالک کے پارلیمانی نمائندے اور سماجی تحریکوں کے رہنما علی وزیر اور محسن داوڑ کی فوری رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
پی ٹی ایم پر حالیہ سرکاری جبر کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سابقہ فاٹا کے علاقوں میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ امیداروں کی جیت کے واضح امکانات ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ جبر کے ساتھ 2018ء کے عام انتخابات والی تحریک دہرائی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر سے علی وزیر کیساتھ یکجہتی کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
لیکن عملاً اس کی کیا شکلیں سامنے آسکتی ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ فی الوقت پرامن لیکن بھرپور مزاحمت کا راستہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا چکی ہے۔