فاروق سلہریا
وزیر اعظم صاحب!
مجھے افسوس ہے آپ کے سیاسی مخالفین نشے کے حوالے سے آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور حال ہی میں حمزہ عباسی کے ساتھ ٹیلی ویژن انٹرویو میں آپ نے منشیات کے استعمال بارے جو گفتگو کی اسے ذاتیات کا رنگ دے کر ایک اہم مسئلے کو مذاق بنا دیا گیا۔
گو آپ خود بھی ہر سنجیدہ مسئلے میں ذاتیات گھسیڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے ہاں بیانئے اس قدر فحش اور نیچ ہو گئے ہیں کہ کوئی بھی شریف انسان پبلک پلیٹ فارم پر بات کرنے سے کترانے لگا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ آپ اور آپ کی تیار کی ہوئی سیاسی کھیپ ہے۔ بہرحال ہم محنت کش لوگ اس کوشش میں لگے رہیں گے کہ سنجیدہ موضوعات پر سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ گفتگو جاری رہے۔
منشیات کا عادی انسان میراڈونا ہو یا میرے پڑوسی مزدور کا بیٹا، سب ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں۔ مذاق کے نہیں۔ شکریہ آپ نے منشیات کے مسئلے پر بات کی۔
ہاں البتہ ایک نشہ ایسا ہے جس کے عادی افراد کسی ہمدردی کے مستحق نہیں۔ وہ ہے طاقت کا نشہ اور میرے خیال سے اس نشے کے عادی کو نشئی نہیں، وحشی کہا جانا چاہئے۔
افسوس آپ خود اس نشے کا شکار ہیں۔ آپ کا طبقہ اس نشے کا شکار ہے۔ آپ کے سرپرست اس نشے کا شکار ہیں۔ یہ ریاست، اس ریاست کے بندوق بردار اہلکار اس نشے کا شکار ہیں جس کی ایک مثال تو مندرجہ ذیل تصویر میں ہی آپ کو مل جائے گی (شائد آپ کی نظر سے بھی گزری ہو یہ تصویر):
ایک بزرگ شہری کی سر عام تذلیل طاقت کے نشے میں دھت کوئی وحشی ہی کر سکتا ہے۔ چرس افیون سونگھنے والا انسان ایسا جنگلی پن کرتے میں نے کبھی دیکھا نہ سنا۔ اسی لئے تو میں نے کہا نہ کہ طاقت کا نشہ کرنے والا نشئی نہیں وحشی ہوتا ہے۔ نشہ کرنے والے افراد کسی بھی طبقے اور خطے سے ہوں، ہماری توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں۔
خان صاحب! طاقت کے نشے میں دھت ایسے کتنے ہی وحشی مل مالک، جاگیردار اور ادارے آئے روز کبھی سر عام ہم محنت کشوں کے گریبان پرہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ کبھی ہمارے ووٹ پر بوٹ رکھ دیتے ہیں۔ کبھی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر لے جاتے ہیں۔
ڈھائی ہزار ٹن کی ہوتی ہے وہ گولی
جب آنکھ پر کالی پٹی بندھی ہو
اورکمر دیوار سے لگی ہو
آپ کی حکومت میں زیادہ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ سچ بولنے کی تو بالکل بھی نہیں۔ اس لئے مختصراً اتنا ہی عرض کروں گا کہ کسی دن طاقت کے اس نشے پر بھی کوئی بھاشن دیجئے۔ ہمیں سمجھایئے کے اخلاقیات سے عاری، منشیات کے مارے برطانیہ میں گوروں نے اپنی بے راہ روی اور نشے کی عادت کے باوجود اپنے طاقتور لوگوں سے طاقت کا نشہ کیسے چھڑایا؟ وہاں ووٹ بوٹ تلے کیوں نہیں روندے جاتے؟ وہاں پولیس والا سر عام کسی بزرگ شہری کے گریبان سے کیوں نہیں پکڑتا؟
یہ بات بھی ضرور واضح کیجئے گا کہ مغرب کا راک اینڈ رول زیادہ فحش ہے یا مندرجہ بالا تصویر جس میں طاقتور ریاست ایک بزرگ کا گریبان پکڑے کھڑی ہے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔