اسلام آباد (نمائندہ جدوجہد) سابق فاٹا سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن اور بائیں بازو کے رہنما علی وزیر کو اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے موٹر وے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ وہ پشاور میں اے پی ایس طلبہ کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کیلئے اسلام آباد سے پشاور جا رہے تھے۔
علی وزیر کی گرفتاری کے وقت بنائی گئی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایم این اے علی وزیرکا کہنا تھا کہ ان کی گاڑی کو ایک پولیس انسپکٹر نے بندوق کا نشانہ باندھ کر روکا اور بتایا کہ حکام کی طرف سے میری گرفتاری کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اب کون سی تقریر یا خاص بیان پر حکام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی پالیسیاں تضادات پر مبنی ہیں، ایک منتخب ایم این اے کو بندوق دکھا کر روکا اور گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ طالبان کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں موٹر وے پولیس اہلکاران بھی یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ علی وزیر ان کے لئے قابل احترام ہیں لیکن انہیں حکام کی طرف سے گرفتاری کے احکامات دیئے گئے ہیں اس لئے وہ مجبور ہیں۔
علی وزیر سابق فاٹا کے علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت میں انکی قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے۔ دہشت گردی اور ریاستی جبر کے خلاف عوامی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کے دوران علی وزیر کے خاندان کے 15سے زائد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ علی وزیر فاٹا اور وزیرستان میں عوامی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی تحریک کے بھی سرگرم رہنما ہیں۔
علی وزیر نے تین مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری ووٹ حاصل کئے، گزشتہ انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ وہ پی ٹی ایم تحریک کے صف اول کے قائدین میں بھی شریک ہیں۔ اس تحریک کے دوران بھی انہوں نے متعدد مرتبہ گرفتاریوں اور صعوبتوں کا سامنا کیا ہے۔
سیاسی و سماجی رہنماؤں نے علی وزیر کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جمہوریت کا مذاق اڑانا بند کیا جائے اور منتخب عوامی نمائندوں کی آوازوں کوبند کرنے اور انہیں گرفتاریوں اور تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔