مسعود قمر
ماضی کی مقبول ہیروئین فردوس دو دن قبل وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کے موقع پر ان کے بارے میں یہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔
کسی نامور شخصیت، ادیب، شاعر، اداکارہ، رقاص، کرکٹر، سیاستدان پہ لکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس کی ساری زندگی آپ کے سامنے ہوتی ہے بلکہ ان کی زندگی کے وہ گوشے بھی جو دنیا سے اوجھل ہوتے ہیں لکھنے والے وہ بھی لکھ دیتے ہیں تا کہ پڑھنے والے لکھنے والے سے مرعوب ہو سکیں۔
کسی ایسی نامور شخصیت، جس کے آپ بہت قریب رہے ہوں، اس پر لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
لکھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس شخصیت کا کونسا گوشہ لکھنا ہے اور کونسا گوشہ جوبالکل ذاتی ہے، اس کی تمام جزیات جانتے ہوئے بھی ضبط تحریر میں نہیں لانا۔
اداکارہ فردوس میری بڑی بہن تھیں، مجھے ماں کی طرح عزیز ہیں۔ انہوں نے جوپیار دیا ہے، کوئی خونی رشتے والی بہن بھی شاید نہیں دے سکتی تھی۔
میں جب بھی پاکستان جاتا اور لاہور کا چکر لگتاتو انہی کے گھر رہتا۔ وہ میرے کھانے کا خاص خیال رکھتیں۔ میں ان کا بیٹا شنو (رضا)، باسو اور ساری فیملی ساری ساری رات باتیں کرتے رہتے۔ فردوس بہن کو علم تھا میں صبح بہت جلد جاگ جاتا ہوں لہٰذا انہوں نے ملازمہ کو خاص ہدایت دی ہوئی تھی کہ مجھے ہر حال میں صبح کی چائے دینی ہے۔ وہ دو دفعہ جب سویڈن اپنی بھتیجی سے ملنے آئیں تو کئی بار وہ صبح بارہ ایک بجے ہی میرے گھر آجاتیں اور رات گئے واپس جاتیں۔
ابھی اسی ماہ کی بات ہے جب ایک اچانک فوتگی کی وجہ سے مجھے پاکستان جانا پڑا تو میں خصوصی طور پر ان سے ملنے لاہور گیا۔ بظاہر وہ ہشاش بشاش نظر آ رہی تھیں مگر مجھے ان کے چہرے پہ ایک خاص تھکاوٹ سی نظر آئی۔
میرے بار بار پوچھنے پہ بھی وہ ہنس کر کہہ رہی تھیں:’نہیں میں ٹھیک ہوں‘۔
(یہ بات ان کی شخصیت کا ایک خاص وصف تھا کہ وہ اپنا دکھ، درد، گلہ، شکایت کسی سے ظاہر نہیں کرتی تھیں۔ میں نے کبھی ان کو کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے کبھی ان کی بھی برائی نہیں کی جنہوں نے ان کو برباد کرنے کی کوشش کی۔ چاہے وہ کوئی رشتہ دارتھا یا کوئی اور)۔
میں ان سے اگلے دن آنے کا کہہ کر، ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر چل پڑا۔ اس رات میری اپنی حالت اتنی خراب ہو گی کہ مجھے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ کیا علم تھا میں ان کے گھٹنوں کو آخری بار چھو رہا ہوں۔
فردوس صاحبہ کا گھریلو نام پروین تھا۔ ان کے خاندان نے بھی 1947ء کی تقسیم کے دوران، دوسرے خاندانوں کی طرح، اپنا سب کچھ لٹا کے خالی ہاتھ سرحد کو پار کیا تھا جو اب نئی مملکت پاکستان کے نام سے جانی جاتی تھی۔
فردوس صاحبہ کے خاندان نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح اس نئے ملک میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے محنت مزدوری کے پیشے کو اپنایا۔
فردوس صاحبہ کو فلموں میں کام کرنے کا رتی بھی شوق نہیں تھا۔ یہ انکی پھوپھی جان تھیں جن کی یہ خواہش تھی کہ کوثر پروین فلموں میں کام کرے۔ کوثر پروین اپنی پھوپھو جی کو ماں کا درجہ دیتی تھیں۔ پھر فردوس صاحبہ فلم سکرین پہ ایسی آئیں کہ ملک کے کسی نا کسی شہر کے کسی نا کسی سینما کی سکرین پہ ان کی فلم چل رہی ہوتی تھی۔
اخبارات میں کام کرنے کی وجہ سے مجھے بہت سی شوبزنس میں کام کرنے والی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کے مواقعے میسر آئے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے جیسے ہی کسی کے چار ڈرامے پانچ گانے یا دو تین فلمیں کامیاب ہوتیں ہیں سب سے پہلے وہ اپنے قریبی، حتیٰ کہ خونی رشتوں سے تعلق توڑ لیتے ہیں۔ ان سے بھی جنہوں نے ان کو اس مقام تک پہنچایا ہوتا ہے، مگر فرودس بہن نے جس طرح شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ کے بھی اپنے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے بچوں کو بھی ساتھ رکھا، بہت کم فنکار ایسا کرتے ہیں۔ اگر کوئی روٹھ کر چلا گیا تو فردوس بہن ان کو منا کر واپس خاندان میں لے آتیں۔
کبھی کسی سے گلہ نہیں کیا۔ خاص طور پر فردوس بہن نے اپنے بچوں کے اوپر تمام آسائشیں وار دیں۔ جو کسی نے چاہا، اسے دے دیا مگر اپنے بچوں کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔
دوسری بات میں نے فنکاروں کے بچے بھی اتنے با تمیز اور ماں کے فرمانبردار نہیں دیکھے، جتنے فردوس صاحبہ کے بچے ہیں۔ ماں جب کوئی کام کہتی تو رضا اور باسو صرف ایک بار ہی دلیل دیتے مگر دوسری بار کہنے پہ ہنسی ہنسی وہی کرتے جو ماں جی نے کہہ دیا۔
چلتے چلتے ایک بات۔ جس طرح انڈیا میں بننے والی فلم’غالب‘ میں نصیرالدین شاہ نے اپنے فنِ اداکاری سے غالب کے کردار کو امر کر دیا ہے اسی طرح فرودس صاحبہ نے پاکستانی فلم ’ہیر رانجھا‘ میں ہیر کے کردار کو امر کر دیا ہے۔
مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ غالب کو جسمانی طور پہ جدا ہوئے ابھی کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں گزرا۔ ابھی کچھ لوگ ہیں جن کے دادا نانا نے غالب کو پڑھتے، پیتے، مشاعروں میں جاتے دیکھا تھا۔ غالب کے لباس کا انداز ان کے بات کرنے، کسی پہ طنز کرنے، چوکڑی کھیلنے کے انداز سے واقف تھے۔ فلم کے ہدایت کا ر گلزار نے ان سب سے مل کر اور ان سب کو نصیر الدین شاہ سے ملوایا تاکہ نصیرالدین شاہ ویسا ہی کر پائے جیسا غالب کرتے تھے۔
فردوس کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔
ہیر رانجھے کی کہانی اگر حقیقی ہے بھی تو یہ صدیوں پرانی بات ہے جو ایک شاعر کے ذریعے سامنے آئی۔ فلم کے ہدایت کار نے زندہ لوگوں سے نہیں، یہ سب ایک شاعر کی کتاب سے لیا اور آگے فردوس صاحبہ کو پیش کیا جس کو فردوس صاحبہ نے اس طرح پیش کیا کہ آج تک کوئی ایسا ہیر کو پیش نہیں کر سکا۔
جس طرح بہت سے شاعروں نے ہیر رانجھے کے قصے کو لکھا مگر جو وارث شاہ موتی پرو گیاکوئی اور نہیں پرو سکا۔ اسی طرح ہندوستان پاکستان کی بہت سے اداکاروں نے ہیر کا کردار ادا کیا مگر ہیر کا کردار جو فردوس جی نے ادا کیا، مجھے یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ اگر کوئی حقیقت میں ہیر کا کردار ہوتا تو وہ فردوس سے زیادہ خوبصورت نہ ہوتا۔ نہ ہی کوئی اداکارہ فردوس سا کردار ادا کر سکی ہے۔