قیصر عباس
دیکھا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں آزادی اظہار پر پابندیاں اوردباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اورصحافیوں کی گمشدگی، قتل اور ان پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے لیکن ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق پاکستان صحافیوں کی ہلاکتوں کے پیمانے پر بھی خطے میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم سی پی جے (Committee to Protect Journalists) کے اعداد و شمار کے مطابق 1992ء سے 2020ء تک پاکستان میں 61 صحافی ہلاک ہوئے جو برصغیرمیں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
اسی عرصے میں افغانستان میں 51، انڈیا میں 51، بنگلہ دیش میں 22، سری لنکا میں 19، نیپال میں 8 اور مالدیپ میں 2 رپورٹر ہلاک کئے گئے لیکن ان ملکوں میں تشدد کے ان تمام واقعات کی تعداد پاکستان سے بہت کم تھی۔
پاکستان کے جانے پہچانے صحافی رضا رومی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو اس تشدد کا نشانہ بنے اور ایک قاتلانہ حملے کا شکاربھی ہوئے۔ وہ آج کل امریکہ میں ایک ملٹی میڈیا ادارے کے روح رواں ہیں اورنیویارک کی ریاست کے ایک کالج میں ذرائع ابلاغ کی تعلیم دے رہے ہیں۔
رضا رومی نے اس صورت حال کی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ریاست کی سنسر شپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں شروع ہی سے صحافی تشددکا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”برطانوی راج کی پالیسیوں کے وارث ہونے کی حیثیت سے پاکستانی ریاست ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کو نہ صرف اسے اپنی طاقت قائم رکھنے کا ایک آلہ سمجھتی ہے بلکہ وہ اسے برسراقتدار طبقے کے مفادات کی حفاظت کے ایک اہم ستون کے طور پر استعمال بھی کرتی ہے۔ آج کل کی صورت حال میں پر تشدد گروہ اور سماج پر پہرے داری کے دعوے دار بھی میڈیا کی نگرانی پر معمور ہیں اور قلم کار ان کے حملوں کی زد میں آچکے ہیں۔“
تنظیم کی ویب سائٹ پر ان اعداد و شمار کی تفصیل میں بتایاگیا ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں کی اس فہرست میں 27 صحافی خطرناک واقعات کی رپورٹنگ کے دوران اور 27 دو گروہوں کے درمیان فائرنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سے 49 میڈیا کے ملازم اور 12 فری لانسر کے طورپر کام کر رہے تھے۔
پاکستان میں قتل ہونے والے ان صحافیوں میں 14 کا تعلق ٹی وی سے، 11 کا اخبارات و رسائل سے جب کہ ریڈیو اور انٹرنٹ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی تعداد ایک تھی۔ اس تشدد کا نشانہ بننے والے تمام صحا فیوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی رپورٹنگ میں مصروف تھی۔ ان ہلاکتوں میں وہ صحافی بھی شامل تھے جو انسانی حقوق، بدعنوانی، جنگ اور جرائم کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
سی پی جے نے ان ہلاکتوں کی زیادہ تر ذمہ داری سیاسی عناصر پر ڈالی ہے جس کے بعد جرائم پیشہ افراد، دفاعی اداروں اور پھر سرکاری محکموں کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تنظیم کے ڈیٹا بیس میں شامل اعداد و شمار کے مطابق قتل ہونے والے 35 صحافی سیاسی گروہوں کا نشانہ بنے، 6 جرائم پیشہ گروہوں، 6 دفاعی اداروں اور 3 سرکاری محکموں اور ارباب اختیار کی انتقامی کاروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
سی پی جے کے اس ڈیٹا بیس میں ہلاک ہونے والے تمام صحافیوں کے نام شامل ہیں اوران ذرائع ابلاغ کی مکمل تفصیل موجود ہے جن کی وہ نمائندگی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ہلاکتوں کی تاریخ بھی اعداد و شمار کا حصہ ہے۔ ان ناموں میں پاکستانی صحافیوں کے علاوہ وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینئل پرل کانام بھی شامل ہے جنہیں 2002ء میں قتل کیا گیا تھا۔
جن اخبارات کے صحافی اور رپورٹر ہلاک کئے گئے ان میں کرک ٹائمز، اخبارجہاں، دی لندن پوسٹ، ڈیلی سندھو، ڈان نیوز، اوصاف، مشرق، پرچم، ڈیلی ایکسپرس، تکبیر، دی نیوز، ڈیلی پاکستان، انتخاب، شمال، امت، دی نیشن، کے ٹو ٹائمز، خبریں، ڈیلی نئی بات، آزادی، فرنٹیر پوسٹ، اخبار خیبر ا ور جنگ شامل ہیں۔
قتل ہونے والے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ٹی وی نیوز سے بھی تھا جن میں درج ذیل ادارے شامل ہیں: سما، اے آر وائی، مرکز اینڈ ڈی ایم ڈیجیٹل ٹی وی، ایکسپرس ٹی وی، کاوش ٹیلی وژن نیٹ ورک، جیو ٹی وی، وقت ٹی وی، دنیا، اب تک، واش ٹی وی، رائل ٹی وی، خیبر ٹی وی، ایسوسی ایٹڈ پریس ٹی وی نیوز، سٹی 42 ٹی وی اور آج نیوز۔
ہلاک ہونے والے صحافیوں کا تعلق آن لائن ذرائع ابلاغ سے بھی تھا جن میں میں انٹر نیشنل نیوز نیٹ ورک، دھرتی اور ایشیا ٹائمز آن لائن کے صحافی شامل ہیں…اگرچہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر صحافی ذرائع ابلاغ کے ملازمین تھے لیکن صحافیانہ ذمہ داریوں کے دوران فری لانسر، یعنی وہ صحافی جو کسی ادارے کے ملازم نہیں تھے، بھی شامل ہیں جن کی تعداد 5 ہے۔
برصغیر میں صحافیوں پر پابندیاں اور تشدد اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی مگر پاکستان میں سرکاری طور پر آزادی اظہار کے برملا دعوے کئے جاتے ہیں اور ہر برسراقتدار جماعت صحافیوں پر تشدد اور خبروں پر پابندیوں سے انکارکرتی ہے۔
رضا رومی نے بتایا کہ ان قدغنوں کے نتیجے میں صحافیوں کے لئے آزادانہ انداز فکر معدوم ہوتا جا رہا ہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں وہ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے انتہائی محتاظ رویہ اپناتے ہیں لیکن ڈیجیٹل میڈیا ابھی تک ان پابندیوں سے آزاد نظر آتاہے جو ارباب حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ان کے مطابق اس سے نبٹنے کے لئے ”1917ء میں دانشوروں اور پارلیمان سے کسی مشاورت کے بغیر ایک ایکٹ لاگو کیا گیا جس سے کے نتیجے میں تشدد اور سنسر شپ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد کئی صحافیوں کو ایف آئی اے نے تفشیش کا نشانہ بنایا اور سوشل میڈیا سے منسلک کئی افرادکو ’ریاست کے خلاف‘ مواد کی پاداش میں گرفتاربھی کیا گیا ہے۔ اسی سال چار بلاگرز کو گرفتارکرکے کئی مہینے جیل میں رکھا گیا۔ عوامی دباؤ کے بعدہی انہیں رہا کیا گیا اور ان میں سے بیشتر اب ملک سے باہر جا چکے ہیں۔“
سوال یہ ہے کہ ان پابندیوں کے خلاف صحافی اور ان کی یونینز کیا کر رہی ہیں؟ رضا رومی کی رائے میں ”درجنوں کی تعداد میں صحافیوں کی ہلاکتوں اور بے روزگار ہونے کے باوجود صحافیوں کے تحفظ کی تنظیمیں متحد نظر نہیں آتیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا گیا ہے“۔
اس کے باوجود رضا ناامید نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں اور تشدد کے باوجود”صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ان قدغنوں کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔“
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں صحافی آزادی اظہار کی ایک بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں اور مملکت خداداد خطے میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی فہرست میں سب سے آگے نظر آتی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف جمہوری روایات بلکہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔