علی مدیح ہاشمی
بے مے کسے ہے طاقت آشوب آگاہی…غالب
سعادت حسن منٹو بدستور ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ کیا وہ اب تک کے سب سے بڑے افسانہ نگار تھے یا اپنے ناقدین کے بقول شراب میں دھت ایک فحش نگار؟ وہ بہترین لکھاری تھے اور ساتھ ہی متنازع بھی ، بعض اوقات وہ بڑے بامقصد بھی دکھائی دیئے۔ ان پر چھ بار فحش نگاری کے مقدمات بنے، تین 1947ءسے پہلے تین بار اس کے بعد، لیکن کسی مقدمے میں انہیں مجرم نہیں گردانا گیا۔
وہ 11 مئی 1912ءمیں پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے گاﺅں سمرالہ میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان قانون کے پیشے سے وابستہ تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر کے مسلم ہائی اسکول میں حاصل کی، وہ روایتی علوم میں دلچسپی نہ رکھتے تھے، سکول کی تعلیم سے ذہنی طور پر باغی رہے، اسی لیے میٹرک کے امتحان میں دو بار ناکام رہے۔ ان دنوں صرف انگریزی ناول پڑھنا ان کا دل پسند مشغلہ تھا، جو اس دور میں ’قابل احترام‘ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے ایک بیہودہ تفریح سمجھی جاتی تھی۔ 1931 میں آخر کار اسکول سے فارغ ہوکر امرتسر کے ہندو سبھا کالج میں داخلہ لیا، جو تحریک آزادی کی وجہ سے پہلے ہی عدم استحکام کا شکار تھا۔ یہاں انہوں نے جلیانوالہ باغ قتل عام پر مبنی اپنا پہلا مختصر افسانہ ”تماشا“ لکھا۔ کالج دور میں بھی ان کی درسی تعلیم میں عدم دلچسپی رہی، یہاں بھی ایف اے کے امتحان میں دو بار ناکام رہے۔ اگلے چند سال کچھ غیرشائستہ افراد کی صحبت میں گھومتے رہے جو رات کے وقت سنیما، شراب، جوئے اور چھوٹی موٹی ڈھگ بازی میں مگن رہتے تھے۔
ان کی زندگی کا اہم موڑ تب آیا جب 21 برس کی عمر میں ان کی ترقی پسند کارکن اور اسکالر عبدالباری علیگ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے باضابطہ آغاز سے کچھ ہی سال پہلے کی بات ہے۔ یہ باری علیگ ہی تھے جنہوں نے منٹو کو اپنا ادبی افق وسیع کرنے اور فرانسیسی اور روسی ناول نگاروں کو پڑھنے کی ترغیب دی۔کچھ ہی مہینوں میں منٹو نے وکٹر ہیوگو کے ناول ”ایک معتوب انسان کے آخری ایام“ کا اردو میں ترجمہ کر دیا، جو سرگزشتِ اسیر (ایک قیدی کی کہانی) کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے فوری بعد ہی وہ لدھیانہ سے شائع ہونے والے روزنامہ مساوات کے ادارتی عملے میں شامل ہوگئے۔
1934ءآسکر وائلڈ کے ”ویرا“ کے اردو ترجمے نے انہیں ادبی حلقوں میں متعارف کرایا۔ باری علیگ کی مسلسل حوصلہ افزائی پر ان کا روسی کہانیوں کے تراجم کا ایک مجموعہ ”روسی افسانے“ کے نام سے شائع ہوا۔ 24 سال کی عمر سے قبل ان کی چار تصنیفات شائع ہو چکی تھیں جن میں ان کے طبع زاد افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شامل تھا۔
اس سارے شائع شدہ کام میں سوشلسٹ پیغام واضح تھا۔ اس شناخت نے منٹو کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گریجویشن کرنے پر مجبور کیا، جہاں انہوں نے فروری 1934ءمیں داخلہ لیا۔ یہاں ان کی علی سردار جعفری اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے دیگر ارکان کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں جو دوستیوں میں بدل گئیں۔ اس دور کی ان کی زیادہ تر کہانیاں ’سوشلسٹ‘ اور مناظرانہ رنگ کی حامل تھیں۔ اس کے بعد وہ ترقی پسندوں کی روایتی ’لیفٹ‘ پوزیشن سے ہٹ گئے اور اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔
1936ءکے بعد وہ بمبئی چلے گئے جہاں وہ اگلے چند سال تک ایک ماہانہ فلمی رسالہ ”مصّور“ کی ادارت کرتے رہے۔ انہوں نے ہندی فلموں کے لئے اسکرپٹ اور مکالمے لکھنا بھی شروع کر دیئے، ان فلموں میں ’کشن کنہیا‘ (1936ئ) اور ’اپنی نگریہ‘ (1939ئ) شامل ہیں۔ ان دنوں ان کی آمدنی معقول تھی۔ انہی دنوں انہوں نے 26 اپریل 1939ءمیں صفیہ سے شادی کر لی، اس کے بعد وہ ایک بار پھر شدید معاشی دباﺅ کا شکار ہو گئے۔
فلمی اسٹوڈیوز نے ان کے کہانی تحریر کرنے کے فن کو پہچان لیا تھا [وہ پہلے ہی کئی فلمی اسکرپٹ لکھ چکے تھے ، بشمول اپنی نگریہ (1939)]۔ اب وہ اشوک کمار جیسے ہم خیال دوستوں کے ساتھ ”آٹھ دن“ جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھانے لگے۔
تقسیم ہند اور بالآخر لاہور منتقل ہونے کے اپنے فیصلے کے بارے میں منٹو نے اپنے مخصوص انداز میںلکھتے ہیں: ”یہ وہ دور تھا جب انگریز تقسیم ہند کے لئے کسی حد تک خاکے بنا رہے تھے، دوسرے لفظوں میں اس موقع پر وہ اپنے ہاتھوں لگائی آگ کا بڑی خوشی سے نظارہ کر رہے تھے“۔
اس حقیقت کے علاوہ کہ ان کے اہل و عیال پہلے ہی لاہور جا چکے تھے، تقسیم ہند قریب آتے ہی بمبئی کو بھی فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب فطری تھا۔ بہرحال فرقہ وارانہ خطوط پر ہونے والی تقسیم کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کے لئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے اور کشیدگی پھیلانے کی ضرورت تھی۔ مالی اتار چڑھاو¿ کے باوجود منٹو نے فلموں کے لئے لکھنا جاری رکھا۔ جنوری 1941ءمیں وہ دہلی چلے گئے جہاں انہیں آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں اسکرپٹ رائٹر کی نوکری ملی تھی۔ یہ ان کا سب سے زرخیز دور ثابت ہوا کیونکہ اٹھارہ مہینوں میں ان کے ریڈیو ڈراموں کے چار مجموعے ’آﺅ‘، ’منٹو کے ڈرامے‘، ’جنازے‘ اور ’تین عورتیں‘ شائع ہوئے۔ انہوں نے افسانہ نگاری بھی جاری رکھی، ان کا اگلا افسانوی مجموعہ ”دھواں“ اور اس کے بعد جلد ہی ”منٹو کے افسانے“ اور ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ ”منٹو کے مضامین“ شائع ہوئے۔ اس دور کا اختتام 1943ءمیں ان کے افسانوں اور ڈراموں کے مخلوط مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہوا۔
آل انڈیا ریڈیو کے اس وقت کے ڈائریکٹر معروف شاعر ن م راشد سے جھگڑے کے بعد منٹو اپنی ملازمت چھوڑ کر جولائی 1942ءمیں بمبئی واپس آ گئے اور پھر فلم انڈسٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ ان کی اسکرین رائٹنگ کا بہترین دور تھا، جب انہوں نے آٹھ دن (ہدایتکاراشوک کمار)، چل چل رے نوجوان اور مرزا غالب جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ مرزا غالب 1954ءمیں منٹو کی پاکستان روانگی کے بعد ریلیز ہوئی۔ ان کی بعض بہترین کہانیاں بھی اس دور میں منظر عام پر آئیں جن میں ”کالی شلوار“، ”دھواں“ (1943ئ) اور ’بو‘ شامل ہے جو فروری 1945ءمیں ”قومی جنگ“ بمبئی میں شائع ہوئی۔ منٹو جنوری 1948ءمیں پاکستان آنے سے قبل بمبئی میں ہی مقیم رہے۔
ان کی متنازع کہانیاں جن پر فحاشی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا (جن سب میں وہ بری بھی ہوئے) آج کے معیارات کے مطابق ہیں۔ ان افسانوں کے پس منظرمیں خطرات کا احساس پایا جاتا ہے اور بے سمتی، بدحواسی اور تشدد کے گرداب میں پھنسے ہوئے مرد و خواتین کے کرداروں کی ٹھوس حقیقت نگاری اہمیت کی حامل ہے۔ منٹو اخلاقیات کا درس دینے یا تبلیغ کرنے سے بھی باز رہتاہے۔ جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ محض مشاہدہ کرتا ہے اور اپنے کرداروں کو خود بولنے دیتا ہے۔ اگرچہ اس کے کردار اکثر اوقات خوفناک اور اپنے چاروں طرف کی ہولناکی کی وجہ سے بے اثر دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ منٹو کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔
انہوں نے لکھا: ”یہ مت کہو کہ ایک لاکھ مسلمان اور ایک لاکھ ہندو مر گئے بلکہ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مر گئے لیکن یہ حقیقی المیہ نہیں ہے، حقیقی المیہ یہ ہے کہ نہ قاتل اور نہ ہی مقتول کسی بھی چیز کا حساب رکھتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بندوق کے ذریعہ مذاہب کو ختم کر سکتے ہیں۔ مذہب، ایمان، یقین، عقیدہ…یہ سب جسم میں نہیں روح کے ساتھ رہتے ہیں…چھریوں اور بندوقوں سے ان کو کیسے فنا کیا جا سکتا ہے“۔
ان کے سب سے مشہور (یا بدنام زمانہ) افسانے جن پر فحاشی کے مقدمات بنے ان میں ”اوپر نیچے اور درمیان“، ”کالی شلوار“ انتہائی تکلیف دہ ”کھول دو“ ( خواتین پر جنسی تشدد کے خلاف ایسا مذمتی استغاثہ کبھی نہ لکھا جا سکے گا)، جبلت کا مثبت اظہار ”بو“ اور ’ٹھنڈا گوشت“ شامل ہیں۔
ان کی کہانیوں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک مستقل موضوع ہے جس کے ذریعے انسان ناقابل برداشت معاشرتی حالات کا سامنا کرتے ہوئے آسانی کے ساتھ تہذیب کا لبادہ اتار کر جانور بن سکتا ہے۔ معاشرے میں جنسی تعلقات کی مرکزی حیثیت میں ان کی دلچسپی بھی انجمن ترقی پسند مصنفین سے ان کی علیحدگی کا باعث بنی۔
منٹو نے اپنے کیریئر کا آغاز ’روایتی سوشلسٹ‘ کہانیاں لکھنے سے کیا تھا جس میں ایک ٹھوس اصلاح پسند پیغام تھا لیکن بہت جلد انہیں ’رجعت پسند‘ اور ”ماڈرنلسٹ“ قرار دیا گیا، یہ اصطلاحیں ان دنوں ’ترقی پسندوں‘ کی مخالف میں استعمال ہوتی تھیں۔ منٹو نے ان الزامات کے خلاف اپنا دفاع کیا ”ادب یا تو ادب ہے یا نہیں، انسان یا تو انسان ہے یا نہیں، وہ گدھا، گھر یا میز نہیں ہو سکتا۔ لوگ کہتے ہیں منٹو ایک ترقی پسند ہے، کیا بکواس ہے۔ سعادت حسن منٹو ایک انسان ہیں اور ہر انسان ترقی پسند ہونا چاہئے“۔
فیض نے ترقی پسندوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر منٹو کا دفاع کیا، اس وجہ سے نہیں کہ وہ منٹو کے فن اور نظریات کے قائل تھے بلکہ اس لئے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کو بنیادی انسانی حق سمجھتے تھے جس کا ہر قیمت پر دفاع کیا جانا چاہئے۔ منٹو تقسیم ہند کے چند ماہ بعد نئے ملک پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان دنوں وہ عظیم شاعر غالب کی زندگی پر ایک فلمی اسکرپٹ پر کام کر رہے تھے، ان دونوں شخصیات کے مابین بہت سی مماثلتیں بھی تھیں۔ غالب نے بھی غربت اور نسبتاً زیادہ نمایاں انداز میں زندگی بسر نہ کی ، ان لوگوں کی بدولت جو ان کے خیال میں ان سے کمتر تھے۔ منٹو کی طرح غالب بھی شراب کے رسیا تھے اور ایک بار ایک چھوٹے سے جرم میں انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ منٹو کی طرح غالب کی بھی ادبی حیثیت سے طویل عرصے تک انکار کیا گیا ۔ منٹوبھی اپنی تحریر کردہ فلم غالب کو مکمل فلم بند ہوتا نہ دیکھ سکے اور 1948ءکے اوائل میں پاکستان ہجرت کر گئے۔
لاہور کو منٹو نے ہجرت کے بعد ویسا شہر نہ پایا، جیسا یہ آزادی سے پہلے اس کی یادوں میں بسا تھا۔ پاکستانی معاشرہ مذہب کا منافقانہ اورمضحکہ خیز روپ دھار رہا تھا، ان کی اس دور کی کچھ تحریروں میں پاکستانی معاشرے کی اس تبدیلی پر بڑی بلیغ تنقید کی گئی ہے۔ لاہور فلم انڈسٹری کی زبوں حالی نے منٹو کو سب سے زیادہ متاثر کیا کیونکہ انڈسٹری کے بہت سے جگمگاتے ستارے ہندوستان روانہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف ہندوستان میں ان کی فلم غالب (1948ئ) ایک مقبولیت کے اعتبار سے دھماکہ خیز ثابت ہوئی اور یہاں تک کہ اس فلم نے پہلا قومی ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔ آزاد ہندوستان فلم انڈسٹری میں وسیع مواقع پیدا کر رہا تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ منٹو نے اسے غلط وقت پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان آتے ہوئے جو رقم وہ بمبئی سے لایا تھا وہ بھی چند مہینوں میں ختم ہو گئی۔ یہ اس کے انجام کا نکتہ آغاز تھا۔ منٹو نے روزگار کے واحد ذریعہ کے طور پر افسانہ نگاری کی طرف رجوع کیا۔ منٹو کے پاکستان میں گزرے سال فنی اعتبار سے بہت زرخیز تھے۔ اس دوران انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھیں جن ان کے شاہکار افسانے بھی شامل ہیں۔ نیز منٹو کی صورت میں پاکستانی معاشرے کو اپنے ابتدائی برسوں کا بہترین وقائع نگار مل گیالیکن ہجرت کا تجربہ منٹو کے لئے دوسرے تمام تجربوں سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
لاہور آنے کے بعد انہوں نے پہلی کہانی ”ٹھنڈا گوشت“ لکھی، جو 1947ءکے فرقہ وارانہ تشدد کی چونکا دینے والی تصویر کشی تھی۔ اس کو مارچ 1949ءمیں ایک ادبی رسالے میں شائع کیا گیا تھا اور اس رسالے پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس بار ضلعی عدالت نے منٹو کو تین ماہ کی سخت قید اور 300 روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ہائیکورٹ نے قید کی سزا مسترد کردی لیکن جرمانہ برقرار رکھا۔
اسی دوران ”کھول دو“، خواتین کے خلاف تشدد پر مبنی ایک شاہکار افسانہ اور ”اوپر، نیچے اور درمیان“ جو شادی شدہ جوڑے کے جنسی تعلقات کے بارے میں ایک فرضی مضمون ہے، پر بھی وفاقی حکومت نے فحش نگاری کا الزام لگایا تھا۔ یوں منٹو کی کل چھ کہانیوں پر مقدمات بنے۔ وہ بدستور بہترین لکھاری رہا، کبھی کبھی دن میں ایک کہانی لکھتا اور اپنے پبلشروں سے اس کے عوض 25 روپے وصول کرتا، جو ان دنوں بھی ایک معمولی رقم تھی۔ تاہم وہ ایک ناخوش اور بے چین شخص تھا۔
لاہور آنے کے بعد اس کی شراب نوشی بڑھ گئی تھی۔ کئی دفعہ اس نے اپنی ساری آمدنی شراب پر خرچ کی۔ مایوس کا شکار ان کی اہلیہ صفیہ منٹو کی جان اور صحت سے متعلق خوفزدہ تھیں، انہوں نے ایک دفعہ منٹو کی بہتری کیلئے انہیں پاگل خانے داخل کرا دیا۔ جب تک وہ شراب پیتے رہے انہیں اس تجربے سے اپنے شاہکار افسانے ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ کیلئے مواد ملتا رہا۔ قیدیوں سے بھری پناہ گاہ، ان کی آزمائشوں، مصیبتوں اور ان کی زندگیوں پر ہندوستان کی فرقہ وارانہ تقسیم کے اثرات پر ایک شاندار کہانی۔ وہ 18 جنوری 1955ءکو اپنی 43 ویں سالگرہ کے چند دن بعد شراب نوشی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور خرابی جگر کے باعث انتقال کر گئے۔
فیض احمد فیض، جو خود ریاست کے خلاف جرائم کے الزام میں مونٹگمری (ساہیوال) جیل میں قید تھے، منٹو کی موت پر اپنی اہلیہ ایلس کو خط لکھتے ہیں: ”منٹو کی موت کی خبر سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود بھی وہ بہت پیاراانسان تھا…وہ اکثر مجھے گھر ملنے آتا اور ہم موپساں، چیخوف، فرائڈ اور خدا جانے کس کس کے متعلق بحث کرتے تھے“۔
ہمارے دانشور جنہیں کسی فنکار کے ٹوٹے ہوئے دل سے کوئی سروکار اور ہمدردی نہیں، اس میں کوئی شک نہیں وہ منٹو کو خود اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ شراب پیتا تھا، متزلزل زندگی گزارتا تھا ، اپنی صحت وغیرہ کو خراب کرتا تھا لیکن کیا کبھی کوئی سوچتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
کیٹس نے بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارا، اسی طرح رابرٹ برنز اور موزارٹ نے بھی اور بھی نام ہیں، حقیقت میں جب معاشرتی حالات کی وجہ سے آرٹ اور زندگی ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہوں تو ایک کو قربان ہونا پڑتا ہے۔ دوسرا راستہ سمجھوتہ ہے جس میں آرٹ اور زندگی دونوں کا ایک حصہ قربان کرنا پڑتا ہے اور تیسرا راستہ یہ ہے کہ دونوں کو باہم ملا کر جدوجہد کی منصوبہ بندی کی جائے جو صرف عظیم آدمی ہی کر سکتے ہیں۔ منٹو ایک عظیم فنکار نہ تھا لیکن وہ ایماندار، باصلاحیت اور سیدھا سادہ انسان تھا۔ سعادت حسن منٹو لاہور میں دفن ہے لیکن اس کے خیالات و نظریات اس کی روح میں زندہ ہیں۔