حارث قدیر
معروف جریدے ایشیا ٹائمز کے مطابق پاکستان کی امریکہ اور فرانس میں موجود جائیدادوں کے ضبط ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ ایک برطانوی عدالت نے ثالثی ٹربیونل کے ایک فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں غیر ملکی کمپنی کے ساتھ 28 سال پرانے سونے کی تلاش کے معاہدے کو منسوخ کرنے کی وجہ سے پاکستان پر 5.9 ارب امریکی ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
رواں ماہ برطانیہ کی ایک مقامی عدالت نے نیویارک میں موجود روز ویلٹ ہوٹل اور پیرس میں سکرائب ہوٹل کی قیمتوں کے تعین کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ ہوٹل پاکستانی ریاستی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن انوسٹمنٹ لمیٹڈ کی ملکیتی جائیدادیں ہیں۔ مذکورہ کمپنی برٹش ورجن آئی لینڈز میں باضابطہ رجسٹرڈ ہے۔
جولائی 2019ء میں عالمی بنک کے زیر انتظام ثالثی ٹربیونل میں سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کیلئے قائم عالمی مرکز نے تیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے ساتھ سونے کی ایکسپلوریشن کا لائسنس منسوخ کرنے پر پاکستان کو 5.9 ارب ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ مذکورہ کمپنی آسٹریلیا کی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی انٹوفاگستا پی ایل سی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔
ٹی سی سی نے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑیوں سے سونے کی ایکسپلوریشن کے مشترکہ منصوبہ کا معاہدہ منسوخ کئے جانے پر 8.5 ارب ڈالر ہرجانے کی استدعا کی تھی۔ یہ معاہدہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور آسٹریلیائی کان کنی کی کمپنی بروکن ہل پراپرٹی (بی ایچ پی) کے درمیان 1993ء میں ریکوڈک کے حقوق کیلئے کیا گیا تھا۔
بعد میں بی ایچ پی نے اپنا حصص ٹی سی سی کو فروخت کردیا، جس نے سونے اور معدنیات کی کانوں کا انتظام سن 2008ء سے اس وقت تک کیا جب معاہدے کے خاتمے کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز ہوا۔
سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر کے لئے مشہور ریکو ڈِک کان میں تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اس میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا سونا ذخیرہ ہے۔ پاکستان کے شمال مغربی صوبہ بلوچستان میں چاغی کے ایک چھوٹے سے صحرائی علاقے میں واقع یہ کان ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب ہے۔
اس کان کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 2 لاکھ ٹن تانبا اور 2 لاکھ 50 ہزار اونس سونا ہے۔ ٹی سی سی کے جائزے کے مطابق بارودی سرنگوں سے سالانہ منافع تانبے کیلئے تقریباً 1.14 ارب ڈالر اور سونے کیلئے 2.5 ارب ڈالر ہے جو کل 3.64 ارب ڈالر ہے۔
ٹی سی سی کے حساب سے کان کی 55 سالہ زندگی میں مجموعی منافع 200 ارب ڈالر ہے جو آزاد تخمینے سے بہت کم ہے، آزاد تخمینے میں یہ اعداد و شمار 500 ارب ڈالر تک منافعے کے ہیں۔
پاکستان اور ٹی سی سی کے مابین تنازعہ پر کارروائی کے دوران ٹربیونل نے کیس کا فیصلہ آسٹریلیائی کمپنی کے حق میں دیا۔ جس پر پاکستان کے خلاف 4.08 ارب ڈالر جرمانہ اور 1.87 ارب ڈالر جرمانہ بطور سود عائد کیا گیا۔
پاکستان کے ساتھ 1998ء کے معاہدے کے تحت کمپنی نے ریکوڈک کے سونے اور معدنیات کے ذخائر کو 55 سال تک نکالنے کا حق حاصل کر رکھا تھا۔ تاہم نومبر 2011ء میں بلوچستان کی کان کنی اتھارٹی نے معاہدے کی شفافیت پر اعتراضات کرتے ہوئے ٹی سی سی کے حقوق کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ماہرین نے ٹی سی سی کی فزیبلٹی رپورٹ کو عدم اطمینان بخش پایا اور الزام لگایا کہ اس میں کان کنی اور قیمتی دھاتوں کو نکالنے سے متعلق کارروائی کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔
ٹی سی سی کا دعویٰ ہے کہ حکومت نکالی گئی دھاتوں کی پراسیسنگ اور ریفائنری کا انتظام اور فنانس کرنے کی پابند ہے اس وجہ سے کمپنی نے اس مقصد کیلئے بجٹ نہیں بنایا تھا۔ اس وقت تک کمپنی نے ریکوڈک کی کان میں 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔